Maktaba Wahhabi

266 - 484
عباس رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی حدیث ہوتی تو اس کو روایت کرتے اسی بنا پر ہمارے اصحاب (حنفیہ) نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت دربارہ مسئلہ مصراۃ کو قیاس کے مقابلہ میں ترک کر دیا اور باعتبار راویوں کے اختلاف کے ہم نے کہا کہ خبر واحد پر عمل کرنے کی شرط یہ ہے کہ وہ قرآن اور سنت مشہورہ کے خلاف نہ ہو (چنانچہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد تمہارے پاس احادیث کثرت سے بیان ہوں گی۔ پس جب تمہارے پاس میری طرف سے کوئی حدیث پیش ہو تو اسے کتاب کے سامنے کرنا پس جو اس کے موافق ہو اسے قبول کر لینا۔ اور جو اسکے خلاف ہو اسے رد کر دینا۔‘‘ اس عبارت کے متعلق ہم کسی قدر تفصیل سے بیان کرنا چاہتے ہیں کیونکہ نفس مسئلہ کے علاوہ اس کی زنجیر کی ایک ایک کڑی غلط اور بے قاعدہ ہے۔ (۱) نفس مسئلہ کی تحقیق کہ آیا حفظ اور عدالت کے علاوہ راوی کے لئے فقہ و اجتہاد بھی ضروری ہے؟ (۲) آیا یہ اصول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا وضع کیا ہوا ہے یا کسی اور کا؟ (۳) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ اور مجتہد تھے یا نہ تھے؟ (۴) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اعتراض حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر کس جہت سے تھا؟ آیا حدیث کو قیاس کے خلاف سمجھا جیسا کہ مصنف نے سمجھا یا کچھ اور بات تھی؟ (۵) تحقیق حدیث مصراۃ (۶) خبر واحد کا مخالف کتاب و سنت مشہورہ و خلاف ظاہر ہونا (۷) حدیث تکثر لکم الاحادیث بعدی۔۔۔ الخ کی تحقیق (۸) وہ مثالیں جن میں حنفیہ نے خود اس اصول کا خلاف کیا ۔ پس ان رؤس ثمانیہ کی تحقیق سے منکشف ہو جائے گا کہ اپنے ایک خود ساختہ قاعدہ کی ترویج کے لئے کس قدر بے ضابطگیاں کرنی پڑیں جن سے سنت صحیحہ کو بے پرواہی سے ٹال دینا نہایت آسان ہو گیا۔ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ سے چھوٹے لیکن
Flag Counter