ہوتی ہے۔ چنانچہ اصول شاشی میں ہے۔
والقسم الثانی من الروایۃ ھم المعروفون بالحفظ والعدالۃ دون الاجتہاد والفتوی کابی ہریرۃ وانس بن مالک فاذا صحت روایۃ مثلہما عندک فان وافق الخبر القیاس فلا خفاء فی لزوم لعمل بہ وان خالفہ کان العمل بالقیاس اولی مثالہ ماروی ابوہریرۃ الوضوء مما مستہ النار فقال لہ ابن عباس ارأیت لوتوضات بماء سخین اکنت تتوضاء منہ فسکت وانماردہ بالقیاس اذ لوکان عندہ خبر لرواہ وعلی ھذا ترک اصحابنا روایۃ ابی ہریرۃ فی مسئلۃ المصراۃ و باعتبار اختلاف الروایۃ قلنا شرط العمل بخبر الواحد ان لا یکون مخالفا للکتاب والسنۃ المشہورۃ وان لا یکون مخالفا لظاھر قال علیہ السلام تکثر لکم الاحادیث بعدی فاذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللّٰہ فما وافق فاقبلوہ وما خالف فردوہ۔[1]
’’دوسری قسم راویوں کی جو حفظ اور عدالت (تقوی) میں تو معروف (و مشہور) ہیں لیکن اجتہاد اور فتوی میں معروف نہیں ہیں مثلاً حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ پس جب کوئی روایت ان جیسے (اصحاب) سے تیرے نزدیک صحیح ثابت ہو جائے اگر وہ حدیث قیاس کے موافق ہو تو اس کے لازم العمل ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ اور اگر (وہ حدیث) قیاس کے خلاف ہو تو قیاس پر عمل کرنا بہتر ہو گا۔ مثال اس کی وہ حدیث ہے جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی آگ پر پکی ہوئی چیز کھا لینے سے وضو (نیا) کرنا چاہئے اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم گرم پانی سے وضو کرو تو کیا تم پھر اس کی وجہ سے بھی تازہ وضو کرو گے؟ تو ابو ہریرہ (سن کر) چپ ہو گئے (معلوم ہوا کہ ابن
|