Maktaba Wahhabi

264 - 484
دوسرا امر یہ ہے کہ آیت رضاع میں یہ امر مذکور نہیں ہے کہ دودھ کتنی عمر میں پیا جائے کہ حرمت نکاح کے متعلق اس کا اعتبار کیا جائے۔ ہاں یہ بات حدیث میں مذکور ہے چنانچہ ’’بدایہ‘‘ اور اس کی شرح ہدایہ میں ہے۔ واذا مضت مدۃ الرضاع لم یتعلق بالرضاع تحریم لقولہ علیہ السلام لا رضاع بعد الفصال (ہدایہ جلد۲ ص۳۲۹) ’’اور جب رضاع کی مدت گذر جائے۔ تو رضاع کے متعلق حرمت کا حکم نہیں رہتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی وجہ سے کہ دودھ چھڑانے کی عمر کے بعد رضاع کا اعتبار نہیں ہے۔‘‘ فقہائے حنفیہ رحمہ اللہ نے اس حدیث سے آیت قرآنی پر زیادت کو بلا تردد قبول کر لیا ہے۔ حالانکہ محدثین کے نزدیک اس حدیث کی سند صحیح مسلم کی حدیث ’’لا تحرم المصۃ ولا المصتان‘‘ کے برابر نہیں ہے۔ جس کو انہوں نے قرآن پر زائد سمجھ کر متروک و مردود قرار دیا۔ (معاذ اللہ) اس مقام پر ہم صاحب مفتاح کے امکانی جواب کا جواب بھی ذکر کرتے ہیں جس کا اوپر وعدہ کیا گیا تھا۔ کہ اگر اس آیت کو بلحاظ مبداء کے عام قرار دے کر عام اور مطلق دونوں کی مثال قرار دیتے ہیں تو اس عموم میں رضیع کبیر کی شیر مادر بھی داخل ہے۔ پس اس کو آیت کے حکم میں کیوں نہیں لیا۔ اور کیوں ایسی حدیث جو اخبار احاد میں ہونے کے علاوہ اسناد میں بھی رفعا متفق الصحتہ نہیں ہے قرآن پر زیادت کر لی۔ تلک اذا قسمۃ ضیزی۔ اس تفریق کی وجہ یہ ہے کہ رضاع کبیر کا اعتبار ان کے امام نے کیا تو انہوں نے بھی کر لیا گو متفق الصحتہ حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اور عدد رضعات کا اعتبار ان کے امام نے نہ کیا تو انہوں نے بھی نہ کیا اس کی طرف التفات نہ کیا۔ اگرچہ وہ کئی ایک متفق الصحتہ احادیث سے ثابت ہے۔ پانچویں مثال: یہ ہے کہ فقہائے حنفیہ کے اصول کا ایک قاعدہ ہے جو صحابی غیر مجتہد ہو اس کی روایت اگر من کل الوجوہ قیاس کے خلاف ہو تو وہ روایت قابل ترک
Flag Counter