Maktaba Wahhabi

263 - 484
دوم یہ کہ آیت میں اگر عدد رضعات کا ذکر نہیں تو کئی ایک دیگر امور بھی مذکور نہیں ہیں ۔ اور وہ حنفیہ کے نزدیک امر رضاع میں حدیث ہی سے ثابت ہو کر قابل اعتبار ہیں ۔ پہلا امر یہ ہے کہ آیت میں صرف شیر مادر اور دودھ کی بہن کی حرمت کا ذکر ہے اور دودھ کی جہت سے باقی رشتوں کا حکم مذکور نہیں اور حدیث میں وارد ہے۔ یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من النسب (صحیح مسلم) پس حدیث میں قرآن سے زائد حکم ہے اور اسے حنفیہ نے تسلیم کیا ہے چنانچہ ’’بدایہ‘‘ اور اس کی شرح ہدایہ میں ہے۔ ولا بامہ من الرضاعۃ ولا باختہ من الرضاعۃ لقولہ تعالی وامھاتکم التی ارضعنکم واخواتکم من الرضاعۃ ولقولہ علیہ السلام یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب۔[1] ’’ اور (نکاح حلال نہیں ) دودھ کی ماں اور نہ دودھ کی بہن سے قول خداوندی وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ کے حکم سے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من النسب کے حکم سے۔ یعنی اس حکم سے کہ جو رشتے نسب سے حرام ہیں وہ رضاع سے بھی حرام ہیں ۔‘‘ اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ صاحب ہدایہ نے ماں اور بہن کے علاوہ باقی رضاعی رشتوں کی حرمت حدیث سے لی ہے۔ ہاں وہ اس کے جواب میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ حدیث کئی ایک صحابیوں سے مروی ہونے کے سبب مشہور ہے۔ سو ہم نے عدد رضعات والی حدیث کی نسبت بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ بھی کئی ایک صحابہ سے مروی ہے۔ فتساویا۔
Flag Counter