Maktaba Wahhabi

262 - 484
اول یہ کہ صاحب اصول شاشی نے جو اس آیت کو عام کہا ہے یہ درست نہیں ۔ کیونکہ جب صورت استدلال کی یہ ہوئی کہ آیت میں صرف رضاع پر حکم حرمت لگایا گیا ہے اور عدد رضعات کا ذکر نہیں ہے۔ تو آیت و حدیث میں مطلق اور مقید کا مقابلہ ہوا نہ کہ عام و خاص کا ۔ فافھم یہ بات صرف ہمیں ہی نہیں کھٹکی۔ بلکہ شارح اصول شاشی صاحب فصول الحواشی کو بھی کھٹکی ہے۔ چنانچہ وہ اس عبارت مذکورہ بالا کی شرح کے بعد اخیر میں یوں تنبیہ کرتے ہیں ۔ وھذا مثال نادر فتامل۔[1] ’’یعنی یہ مثال اجنبی ہے پس تامل کر لینا چاہئے۔‘‘ اور مفتاح الحواشی میں اس پر حاشیہ دیا ہے۔ قولہ ’’وھذا مثال نادر فتامل‘‘ وجہ التامل ان الارضاع فی النص مطلق فالتقیید بالکثیر یکون تقیید المطلق بالخبر الواحد لا تخصیص العام فایرادہ ھہنا غیر مستقیم ویمکن ان یجاب عنہ بانہ عام بالنظر الی المبدأ فایرادہ فی کلا الموضعین مستقیم ’’وجہ تامل کی یہ ہے کہ نص (قرآنی) میں ارضاع کا جو ذکر ہے وہ مطلق ہے۔ پس اسے کثیر کے ساتھ مقید کرنا مطلق کو خبر واحد سے مقید کرنا ہے۔ عام کو خاص کرنا نہیں پس اس مثال کا اس جگہ وارد کرنا درست نہیں ہے۔ اور ممکن ہے کہ اس (اعتراض) کا یہ جواب دیا جائے کہ نص باعتبار مبداء کے عام ہے۔ پس اس کا دونوں محلوں میں وارد کرنا درست ہے۔‘‘ اگرچہ صاحب مفتاح نے اس کے برمحل ہونے کی ایک وجہ ذکر بھی کر دی ہے۔ لیکن ’’یمکن‘‘ کے لفظ سے خود ہی اس کے ضعف کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے اور آگے چل کر انشاء اللہ ہم اس پر کچھ اور بھی لکھیں گے۔ بہرحال شاشی کا اسے عام قرار دینا خود حنفیہ کے نزدیک بھی تسلی بخش نہیں ہے۔
Flag Counter