ابان وتابعہ اکثر المتاخرین واما عند الکرخی ومن تابعہ من اصحابنا فلیس فقہ الراوی شرطا لتقدم الحدیث علی القیاس بل خبر کل راو عدل مقدم علی القیاس اذا لم یکن مخالفا للکتاب والسنۃ المشھورۃ۔[1]
’’راوی فقیہ اور عادل میں یہ فرق … عیسی بن ابان کا مذہب ہے۔ اور اکثر متاخرین نے اس کی پیروی کی ہے لیکن امام کرخی رحمہ اللہ اور ہمارے اصحاب میں سے جو اس کے پیرو ہوئے ہیں ان کے نزدیک راوی کی فقاہت شرط نہیں ہے کیونکہ حدیث قیاس پر مقدم ہے۔ بلکہ ہر ایک حدیث جو عادل راوی کی روایت سے ہو قیاس پر مقدم ہے۔ جب کہ وہ کتاب اللہ اور سنت مشہورہ کے خلاف نہ ہو۔‘‘
(۲) اسی طرح رئیس الحنفیہ امام ابن الہمام جو حنفیوں کے نزدیک رتبہ اجتہاد پر مانے گئے ہیں ۔[2] اپنی کتاب تحریر میں اور محقق ابن امیر الحاج اس کی شرح ’’التقریر و التجیر‘‘ میں فرماتے ہیں ۔
(مسئلۃ) اذا تعارض الخبر الواحد والقیاس (لاجمع) بینھما ممکن (قدم الخبر مطلقا عند الاکثر) منہم ابو حنیفہ والشافعی و احمد۔[3]
’’جب خبر واحد اور قیاس میں ایسا تعارض ہو کہ ان دونوں میں جمع ممکن نہ ہو تو اکثر ائمہ کے نزدیک حدیث کو بہر حال مقدم کیا جائے گا۔ ان میں سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ ہیں ۔‘‘
|