Maktaba Wahhabi

236 - 484
اور ’’شمس الائمہ‘‘ کے خطابات سے یاد کیا جاتا اور جو ان سے اعراض رکھتے وہ فقر و درویشی کی حالت میں کسی حجرے یا زاویہ میں درس و تدریس میں لگے رہتے یا جمع احادیث کے لئے بادیہ پیمائی اور صحرا نوردی میں زندگی گذار دیتے۔ حالانکہ دونوں کے علمی و عملی کمالات میں دن رات کا فرق تھا۔ اور اگر ان میں سے کوئی کبھی ایسا کلمہ حق کہہ دیتا جو حکومت کے خلاف منشا ہوتا تو پابجولاں قید و بند میں ڈال دیا جاتا جہاں سے بس اس کا جنازہ ہی نکلتا۔ یا اسے جلا وطن کر دیا جاتا یا نہایت سختی سے اسے پیٹا جاتا۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ‘ امام مالک رحمہ اللہ ‘ امام شافعی رحمہ اللہ ‘ امام احمد رحمہ اللہ ‘ امام بخاری رحمہ اللہ ‘ امام ابن حزم رحمہ اللہ ‘ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے واقعات اس کے شاہد ہیں ۔ رحمہم اللہ اجمعین۔ اس کے ساتھ چوتھی وجہ یہ بھی ملا لیں کہ مباحثہ کے وقت رد و تردید میں عصبیت غالب آجاتی ہے تو دوسرے کی مخالفت کے لئے خواہ مخواہ کھنیچ تان کر کے دوسرا پہلو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ جس کے الزام سے بچنے کے لئے کسی پہلے امام کے قول کا سہارا پکڑنا پڑتا ہے۔ پس دربار شاہی کے مناظرات میں یہ نظارہ بھی ہوا کرتا تھا۔ (۵) نیز یہ وجہ ہوئی کہ علاوہ شاہی مناظرات کے خود دربار قضا کے فیصلہ جات میں جب فقہاء میں مزاحمت ہوتی اور ایک دوسرے کی تردید کرتا تو سلسلہ کلام کو منقطع کرنے کے لئے کسی مسلم بزرگ سے موافقت ضروری سمجھی جاتی جس سے رفتہ رفتہ اقوال الرجال پر فتویٰ ہونے کے سبب تقلید کی جڑ جم گئی۔ (۶) نیز یہ کہ زمانہ رسالت سے دوری کے سبب جو قاضیوں میں بھی انصاف نہ رہا۔ تو ان کے فیصلے کا کیا اعتبار؟ لہٰذا ضرور تھا کہ وہ اپنے فیصلہ کو دوسرے کی نظر میں وقیع بنانے کے لئے کسی پہلے امام و مقتدا کے قول سے استناد کریں ۔ جس سے آخر کار یہ ہو کر رہا کہ اقوال الرجال بالاستقلال شرعی سند سمجھے جانے لگے۔ اور یہ عین تقلید ہے۔ غرض ہر زمانے کے انقلابات اور کوائف پر نظر کرنے والے اصحاب آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ قول بالتقلید زمانہ نبوت کے بہت عرصہ بعد حادث ہوا۔ اور اس کا بڑا سبب ان امور کا پیدا ہو جانا ہے۔ جو امتداد زمانہ سے پیدا ہو جایا کرتے ہیں اور وہ قرآن مجید میں
Flag Counter