کی تنظیر اور تفرقہ پر قدرت حاصل ہو اور ان دونوں امور (تنظیر و تفریق) میں جہاں تک کر سکے ان کو اپنے امام کی پیروی کرنی پڑی اور یہی ملکہ اس زمانے کا علم فقہ تھا۔
اسی لئے ان لوگوں میں جنہوں نے تقلید شخصی کو پختہ پکڑ لینے کے سبب اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا تھا۔ متاخرین میں صاحب دماغ آدمی کمتر پیدا ہوئے۔ اور اگر قدرت نے اپنے خزانہ بخشش سے کسی کو کچھ بخش بھی دیا تو اس نے بھی بوجہ اپنے اختیار کردہ مذاہب کے کہ اب اجتہاد کی ضرورت نہیں نہ تو اس نعمت سے خود فائدہ اٹھایا نہ لوگوں کو پہنچایا اور تصانیف میں سوائے ان اقوال کے اعادہ و تکرار کے جوان کے اسلاف فرما گئے تھے کچھ نہ لکھ سکے۔ مثلاً کمال الدین ابن ہمام المتوفی ۸۶۱ھ کو ایک طرف تو ان یکے وفور علم۔ وسعت نظر اور وقت فہم کی بنا پر یہ کہا جاتا ہے بلغ رتبۃ الاجتہاد[1] تک پہنچ گئے تھے لیکن دوسری طرف اس لئے کہ وہ ۵۳۷ھ کے یعنی علامہ نسفی کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کو اس کثرت علم۔ وسعت نظر اور وقت فہم سے دائرہ تقلید سے باہر کام لینے کی اجازت نہیں ملی۔ الا اس صورت میں کہ اقوال ماضیہ کی نصرت میں کچھ کہیں بفحوائے إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ (مائدہ پ۶) (اگر تم کو یہ بات جو ہم کہتے ہیں ملے تو اسے لے لو اور اگر یہ نہ ملے تو بچے رہنا) زمانہ کا یہ انقلابی اثر اور نصوص سے یہ بے پرواہی خاص اسی دائرہ میں ہوئی جنہوں نے تقلید اختیار کر لی تھی ورنہ وہ لوگ جو طرز اول پر قائم رہے۔ اور جنہوں نے عمل بالحدیث کے لئے صرف انہی قواعد علمیہ و شرعیہ کی رعایت ضروری جانی جو فہم خطاب اور دلالت کلام کے متعلق بعض عقلی اور بعض عرفی ہوتے ہیں ۔ اور قرآن و حدیث سے ان کا استنباط ہو سکتا ہے۔ اور کسی مجتہد کی وساطت کو غیر ضروری جان کر تقلید لازم نہیں کر لی تھی۔ وہ بفضل خدا برابر نصوص شرعیہ کی حفاظت میں کمر بستہ رہے۔ اور تحریر و تقریر ہر دو طریق سے اشاعت سنت میں کوشاں رہے اور سچ پوچھئے تو آج انہی کے دم قدم کی برکت سے
|