Maktaba Wahhabi

233 - 484
تک بھی لکھ دیا ہے کہ اگر ہم کو کوئی ایسی حدیث ملے جو از روئے روایت و درایت بالکل صحیح و غیر منسوخ ہو لیکن اس پر کسی مجتہد نے عمل نہ کیا ہو تو ہم اس کو اختیار نہیں کریں گے۔ جب یہ خیال راسخ ہو گیا۔ تو انصاف فرمائے کہ نصوص شرعیہ کی حفاظت کا کیا فائدہ؟ اور ان کی آموخت سے کیا حاصل؟ بس اس خیال سے رہی سہی قوت بھی جاتی رہی۔ اور حدیث یقل العلم ویظھر الجہل (بخاری) یعنی علم کم ہو جائے گا اور جہالت غالب ہو جائے گی۔ واقعات کی رو سے یہ بھی ثابت ہو گئی پھر اس کا لازمی نتیجہ یہی تھا کہ نصوص (قرآن و حدیث) سے بے پرواہی کی جائے اور ان میں غور و فکر ترک کر کے اور تقلید کا رعب جما کر دماغ کی قوت استنباط اور ملکہ اجتہاد کو معطل و بے کار کر دیا جائے۔ سو ہو کر رہا۔ ہمارے نزدیک تقلید کی جڑ پکڑنے اور جلد شائع ہونے کی ایک وجہ علمی کمزوری اور دماغ کی نارسائی ہے۔ چنانچہ علامہ ابن خلدون اپنی تاریخ کے مقدمے میں فرماتے ہیں ۔ ولما صار مذھب کل امام علما مخصوصا عند اھل مذھبہ ولم یکن لھم سبیل الی الاجتہاد والقیاس فاحتاجوا الی تنظیر المسائل فی الالحاق وتفریقہا عند الاشتباہ بعد الاستناد الی الاصول المقدرۃ من مذھب امامھم وصار ذلک کلہ یحتاج الی ملکۃ راسخۃ یقتدر بہا علی ذلک النوع من التنظیراوا التفرقۃ و اتباع مذھب امامھم فیہما ما استطاعوا وھذہ الملکۃ ھی علم الفقہ لھذا العمد (مقدمہ ص۲۷۵) اور جب ہر امام کا مذہب اس مذہب والوں کے نزدیک ایک مخصوص علم ہو گیا۔ اور ان کے لئے اجتہاد و قیاس کی کوئی سبیل نہ رہی تو وہ (مسائل کو) اپنے امام کے مقررہ اصول کی طرف مستند کرنے کے بعد الحاق (ایک مسئلے کو دوسرے سے ملانے) میں اس کی نظیر بنانے اور اشبتاہ کے وقت ان میں فرق بتانے کے محتاج ہوئے اور ان سب میں ایسے پختہ ملکہ کی حاجت پڑی جس سے اس قسم
Flag Counter