شد دروقت خود۔ وشہرت عظیم یافت کہ ہیچ کس دراں شہرت و قبول نزدیک بادو مشابہ نبود۔ (صفحہ ۵‘۶)
’’امام مالک رحمہ اللہ دراز قد بزرگ سر تھے۔ تالو پر بال بھی نہ تھے۔ نہایت سفید رنگ مائل بسرخی تھے۔ سر اور داڑھی (کے بال) سفید تھے۔ علم حدیث زیادہ تر اہل مدینہ سے حاصل کیا۔ اور علم کو ان کے ہاتھوں ہاتھ لیا پہلے تو علم فقہ و فتاوی کا مدار حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر تھا اور وہی اس تسبیح کے امام [1]تھے۔ اور آپ کے بعد اس کا دورہ دیگر فقہاء صحابہ مثلاً حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہم پر ہونے لگا اور وہی اس دائرہ کے مرکز ٹھیرے۔ اور ان کے بعد یہ کاروبار‘ فقہا سبعہ پر پڑا مانند سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ اور عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور سالم بن عبداللہ بن عمر۔ اور قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے۔ اور ان کے بعد امام زہری اور یحییٰ بن سعید انصاری اور زید بن اسلم اور ربیعۃ الرائی اور ابن الزناد اور نافع پر (پڑا) اور ان سب کے بعد ان سب کے وارث امام مالک رحمہ اللہ ہوئے جنہوں نے ان کی احادیث و آثار کو مدون کیا اور جو کچھ (استادوں کے) سینے سے (شاگردوں کے) سینے میں منتقل ہوتا چلا آیا تھا اسے کاغذوں کے پیٹ کے سپرد کیا یعنی لکھا اور سب شہروں کی ساری اسلامی دنیا آپ کی طرف متوجہ ہو گئی۔ کیا روایت حدیث میں اور کیا فتاوی میں اور آپ اپنے زمانہ میں سب کے سرتاج ہو گئے اور ایسی شہرت پائی کہ دوسرے شخص نے ویسی شہرت اور قبولیت یا اس کے کچھ قریب بھی نہ پائی۔‘‘
قوت حافظہ:۔ امام مالک رحمہ اللہ کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ چنانچہ آپ کے شاگرد رشید امام معن بن عیسی جن کو آپ کی اخیر عمر تک خدمت و حضوری کا شرف حاصل رہا کہتے ہیں ۔
|