تحصیل علم:۔
آپ کو تحصیل علم کے لئے مدینہ طیبہ سے باہر جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کیونکہ مدینہ شریف اس وقت علم کا گہوارہ تھا۔ دس سال تک مہبط و منزل وحی کا مسکن رہنے کے بعد چوتھائی صدی تک خلافت راشدہ کا گھر ہونے کی وجہ سے ممالک اسلامیہ کا مرکز اور عالم اسلامی کا مرجع رہ چکا تھا۔ امام مالک رحمہ اللہ کی صغر سنی میں خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے حکم سے علم حدیث کی تدریس کی مجالس اس میں قائم ہو چکی تھیں اور طریقہ تعلیم کا باقاعدہ ڈھنگ پڑ چکا تھا۔ ’’فقہاء سبعہ مدینہ‘‘ کے فیوض کی نہریں ابھی تک جاری تھیں ۔ بڑے بڑے نامی ائمہ حدیث و فقہ موجود تھے۔ جن کے علوم کے وارث اکیلے امام مالک رحمہ اللہ ہوئے۔ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ مصفی میں فرماتے ہیں ۔
وبود مالک درزا قامت۔ بزرگ سر۔ موئے سرنداشت بغایت سفید مائل بسرخی بود۔ سفید شدہ سر وریش او ۔ واکثر اخذ حدیث اواز اہل مدینہ است و علم رادست بدست ازیشان گرفت نخست علم فقہ و فتاوی دواراں میکرد بر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ووے واسطہ عقد بود دریں باب و بعد ازاں برفقہا صحابہ مثل ابن عمر رضی اللہ عنہ و عائشہ رضی اللہ عنہا و ابن عباس رضی اللہ عنہ و ابوہریرہ و انس رضی اللہ عنہ و جابر رضی اللہ عنہ دوران مے کرد و ایشاں مرکز دائرہ آمد ند و بعد ازیشاں این کاروبار برفقہا سبعۃ افتاد۔ مانند سعید بن مسیب رحمہ اللہ و عروہ و سالم و قاسم۔ و بعد ازیشاں بر زہری و یحیی بن سعید وزید بن اسلم و ربیعہ و ابن الزناد و نافع و بعد ازیشاں وارث ایشاں امام مالک رحمہ اللہ شدو حدیث و آثار ایشاں تدوین فرمود و آنچہ از سینہ بسینہ منتقل مے شد دربطون قراطیس و دیعت نمود۔ و اہل آفاق از جمیع امصار بسوئے او متوجہ شدند۔ چہ درنقل حدیث۔ وچہ درفتاوی و سرآمدہمہ
|