(۲) امام صاحب کے جد امجد کہ ان کا نام بھی مالک ہے۔ کبار تابعین اور ان کے علماء سے ہیں ۔ آپ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ‘حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ‘ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت حسان رضی اللہ عنہ وغیرھم صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایت ہے اور پھر آپ سے آپ کے تینوں بیٹوں انس (والد امام مالک رحمہ اللہ ) ابو سہیل نافع اور ربیع نے اور دیگر بہت لوگوں نے روایت کی۔ امام نسائی رحمہ اللہ وغیرہ نے آپ کو ثقہ کہا‘ ۷۴ھ میں فوت ہوئے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی تاریخ صغیر میں آپ کو ان لوگوں میں شمار کیا ہے جو ۷۰ھ اور ۸۰ھ کے درمیان فوت ہوئے۔
آپ ان چار جانباز وفاداروں میں سے ہیں جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا جنازہ اٹھا کر قبرستان میں لے گئے تھے۔[1]حالانکہ وہ وقت نہایت خوف اور بھاری فتنہ کا تھا اور باغیوں کے ڈر سے کسی کو اٹھانے کی جرات نہ پڑتی تھی۔
(۳) امام صاحب کا چچا ابوسہیل بھی ثقات تابعین سے ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ نے ان سے بھی بہت سے احادیث روایت کی ہیں ۔
ان حالات سے معلوم ہو گیا کہ امام مالک رحمہ اللہ بزرگوں کی اولاد اور خاندان اہل علم سے ہیں ۔
حلیہ:۔
آپ دراز قامت۔ بزرگ سر۔ اصلع[2] (جس کے تالو پر بال نہ ہوں )نہایت سفید رنگ مائل بسرخی یعنی خوب گوری رنگت کے (حسین ماہ جبین) تھے۔ نہایت صاحب وجاہت و باوقار تھے۔ مجلس میں حاضرین آپ کے رعب کی وجہ سے زیادہ گفتگو نہیں کر سکتے تھے۔
|