(۱) امام مالک رحمہ اللہ فقہاء (ائمہ مجتہدین) میں سے پہلے شخص ہیں ‘ جنہوں نے مدینہ (طیبہ) میں رجال (راویان حدیث) کی تنقید کی‘ آپ صرف وہی روایت کرتے تھے جو صحیح ہو اور سوائے ثقہ روای کے کسی دیگر سے حدیث نہ لیتے تھے اور (پھر یہ کہ) وہ (ثقہ راوی) فقہ اور دین اور (علم )و فضل اور عبادت والا بھی ہو۱[1] (انتہی مترجما ً)
(۲) اور امام نسائی کا قول ہے کہ:
’’میرے نزدیک تابعین کے بعد امام مالک رحمہ اللہ سے بڑھ کر صاحب (شرافت و) نجابت اور صاحب (عظمت و) جلالت کوئی بھی نہیں ۔ اور نہ کوئی ان سے بڑھ کر صاحب ثقاہت ہے اور نہ کوئی ان سے زیادہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی) حدیث پر صاحب (اعتبارو) امانت ہے اور نہ ضعیف راویوں سے روایت نہ کرنے میں ان سے کم روایت کرنے والا ہے۔ ہمیں (امام نسائی کو) معلوم نہیں ہوا کہ آپ نے سوائے عبدالکریم بصری کے کسی متروک راوی سے حدیث حاصل کی ہو۔[2]
(ب) تحمل روایت تو کیا آپ نا اہل (جو روایت حدیث کے قابل نہ ہوں ) کی مجالست بھی نہ کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کے شاگرد قراد بن نوح کہتے ہیں ۔
(۳) آپ نے کوئی امر ذکر کیا۔ اس پر کسی نے پوچھا۔ یہ بات آپ سے کس نے بیان کی آپ نے فرمایا ما کنا نجالس السفہاء یعنی ’’ہم نادانوں اور نا اہلوں کی مجلس میں نہیں بیٹھا کرتے تھے۔‘‘ (اسعاف المبطا برجال المؤطا للسیوطی)
(۴) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بیٹے عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد (بزرگوار) کو یہ بات کہتے سنا کہ دنیا میں علماء کے فضائل میں کوئی بات اس سے بڑھ کر نہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔ انہ ما جالس سفیہا قط و لم یسلم من ھذا احد غیر مالک یعنی میں نے کبھی کسی نادان (نا اہل و غیر فقیہ) کی مجلس نہیں کی۔ اور اس سے سوائے امام مالک رحمہ اللہ کے کوئی نہیں بچا۔[3]
|