بہت وسیع ہو گئیں اور تمدن اسلامی ترقی پا گیا اور تحریر کا رواج ضرورتوں کی بنا پر عام ہوتا گیا تو علمی کتابوں اور سرکاری کاغذوں کی تصحیح بھی حفظ و درائیت ہی سے کی جاتی رہی۔ چنانچہ علامہ ابن خلدون اپنی تاریخ کے مقدمہ میں فصل صناعتہ الوراقتہ میں لکھتے ہیں ۔
کانت العنایۃ قدیما بالدواوین العلمیۃ و السجلات فی نسخہا و تجلید ھا و تصحیحہا بالروایۃ والضبط (صفحہ ۳۵۲)
قدیم زمانہ میں علمی کتابوں اور سرکاری دستاویزوں کے لکھنے اور جلد سازی اور تصحیح میں روایت اور ضبط (حافظہ) کی طرف التفات و رجوع ہوتا تھا۔
غرض عربوں کے کاروبار کا مدار بیشتر حافظہ پر تھا۔ چنانچہ شیخ محمود سکری بغدادی اپنی تاریخ ’’بلوغ الارب فی احوال العرب‘‘ میں فرماتے ہیں ۔
واما کون العرب احفظ من غیر ہم فلان الغالب منہم امیون ولا یقرؤن ولا یکتبون بل ان جمیع العرب البوادی کذلک و مع ھذا حفظوا علی سبیل التفصیل ایامھم و حروبھم ووقائعہم و ما قیل فیہا من شعر و خطب و ما جری من المفاخرات و المنافرات بین قبائلھم و ضبطوا انسابھم و اسماء فرسانھم الذین نزلوا میادین حروبھم و انھم من ای قبیلۃ والی ای اب ینتہون من الاباء الاولین و اسلافھم السابقین و کان احدھم یقول الشعر بلغت ابیاتہ مابلغت فما ھم الاسمعوہ فانتقش فی صحائف خواطر ھم و تمثل فی خیالھم و ھذا مماتساوی فیہ الخاصۃ والعامۃ منہم والصغیر و الکبیر و الذکر و الانثی من احیائھم و ذلک مما لا یستریب فیہ احد ولا یشک ذونظر و کانوا اذا جرت بینھم حادثۃ غریبۃ او اتفقت لہم نکتۃ غریبۃ ضربوا بہا الامثال وسارت بین القبائل تلک الاقوال فلا تغیب ھاتیک الوقائع عن افکار ھم۔ (صفحہ۴۱‘ ۴۲ج۱۰)
|