’’عربوں کے دیگر قوموں کی نسبت حافظے میں بڑھ کر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر ان میں سے امی تھے کہ پڑھنا جانتے تھے نہ لکھنا۔ بلکہ سب بادیہ نشین عرب ایسے ہی تھے اور باوجود اس کے ان کو اپنے تاریخی ایام اور لڑائیاں اور قومی واقعات اور ان کے متعلق جو اشعار و خطبے کہے جاتے تھے۔ اور ان کے قبائل میں قومی مفاخر و نفرت اور ہجو کے متعلق جو جو کچھ ہو چکا تھا وہ سب کچھ ان کو بالتفصیل محفوظ تھا۔ نیز ان کو اپنے نسب نامے اور اپنے نامور شاہسواروں کے نام جو میدان جنگ میں (جنگ کے لئے) اترتے تھے۔ سب محفوظ تھے۔ اور یہ بھی کہ وہ کس قبیلہ سے ہیں اور پہلے بزرگوں اور پچھلے اجداد میں سے کس دادا تک ان کی نسب منتہی ہوتی ہے۔ اور اگر ان میں سے کوئی شاعر شعر کہتا جس کے بیت (تعداد میں ) جہاں تک کہ پہنچ سکتے۔ تو وہ سب اشعار بس صرف ایک دفعہ کے سن لینے سے ان کے صفحہ دل پر نقش ہو جاتے۔ اور ان کے خیال میں صورت پکڑ جاتے اور اس وصف میں ان کے خاص و عام اور چھوٹے بڑے اور مرد و عورت سب برابر تھے۔ اور یہ ایسی بات ہے جس کے ماننے میں کسی کو بھی تردد نہیں اور نہ کوئی صاحب نظر اس میں شک کر سکتا ہے اور جب ان میں کوئی نادر حادثہ ہوتا یا کوئی عجیب بات پیش آجاتی تو اسے ضرب المثل بنا لیتے اور وہ باتیں مختلف قبائل میں شائع ہو جاتیں پس وہ واقعات ان کے فکروں سے دور نہ ہوتے۔‘‘
پس صحابہ کرام کو ان امور کے محفوظ رکھنے میں جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان وحی ترجمان سے اپنے کانوں سنے تھے یا آپ کے وہ اعمال صالحہ جو انہوں نے اپنی آنکھوں دیکھے تھے۔ اور ان کا نقشہ ان کی نظروں میں برابر پھرتا رہتا تھا یا وہ پیاری اور اخلاص آمیز گفتگوئیں جن سے ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف ہم کلامی حاصل ہوتا تھا۔ کسی تحریری یادداشت کی حاجت نہیں تھی۔ کیونکہ انہوں نے ان کے یاد رکھنے میں اسی مروجہ ملک فطری قوت حافظہ سے کام لیا۔ جس سے وہ پشتوں تک کے واقعات اور قومی
|