سے نکالتا نہیں ۔ اول یہ ہے کہ کوئی اس بات کا معتقد ہو کہ جس شخص نے زبان سے اقرار کر لیا اور دل سے تصدیق کر لی اس کو کوئی معصیت بالکل ضرر نہیں دے گی۔ اور دوم یہ کہ اعتقاد کرے کہ عمل ایمان کی جز نہیں ہے لیکن ثواب و عقاب ان پر مترتب ہوتے ہیں اور دونوں (قسموں ) میں فرق کرنے کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ اور تابعین کا اجماع ہے مرجیہ کے خطا ہونے پر اور ان (صحابہ اور تابعین) کا قول ہے کہ عمل پر ثواب اور عقاب مترتب ہوتا ہے۔
مسئلہ ثانیہ: اجماع سلف ظاہر نشدہ بلکہ دلائل متعارضست بعض آیات و احادیث واثر دلالت می کنند برآن کہ ایمان غیر عمل ست و بسیارے از دلیل دال ست براں کہ اطلاق ایمان برمجموع قول و فعل ست واین نزاع راجع می شود بسوئے لفظ ۔ بجہت اتفاق ہمہ براں کہ عاصی از ایمان خارج نمی شود اگرچہ مستحق عذاب ست و صرف دلائل دالہ براں کہ ایمان عبارت از مجموع ایں چیز ہا است از ظو اہرش بادنٰے عنایت ممکن ست انتہی
پس ان (صحابہ اور تابعین) کا مخالف گمراہ اور بدعتی ہے اور دوسرے مسئلہ میں سلف کا اجماع ثابت نہیں ہوا۔ بلکہ دلائل متعارض ہیں ۔ بعض آیات و احادیث اور آثار (صحابہ) اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ایمان غیر عمل ہے اور اکثر دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ایمان کا اطلاق قول اور عمل پر ہے اور یہ نزاع (محض) لفظ کی طرف رجوع کرتی ہے یعنی لفظی ہے بوجہ اس کے کہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ عاصی ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔ اگرچہ مستحق عذاب ہے۔ اور ان دلائل کو پھیرنا جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ایمان ان سب چیزوں (عقائد و اعمال) کا نام ہے ادنیٰ توجہ سے ممکن ہے۔
حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کے اس حوالہ کے بعد حضرت نواب صاحب مرحوم و مغفور
|