Maktaba Wahhabi

70 - 484
اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں کرے گا۔ حتی کہ تقدیر پر ایمان لائے۔ اس کے بعد حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ عمر رضی اللہ عنہ والی مشہور حدیث بیان کی۔ جس میں مذکور ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان اور اسلام اور احسان اور قیامت اور علامات قیامت کی بابت پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امور ایمان کی نسبت فرمایا۔ ان تومن باللہ وملئکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاخرو تومن بالقدر خیرہ وشر ہ (مسلم) ’’یعنی تو اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور پچھلے دن پر اور خیر و شر کی تقدیر پر ایمان لاوے۔‘‘ توضیح مسئلہ: تقدیر مسئلہ کے ماننے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جبر سے ہر انسان کے عمل اس کے ذمے لگا دئیے ہیں ۔ اور وہ بہرصورت اس سے سرزد ہوتے رہتے ہیں ۔ بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر شے کو اس کے حدود و کوائف اور اس کے وقت و مقام حدوث سمیت اپنے علم ازلی سے قبل اس کے خلق و ایجاد کے جانتا ہے۔ پس جو کچھ واقع و ہادث ہوتا ہے اسی جانے ہوئے علم کا ظہور ہوتا ہے چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ حدیث بالا کی شرح میں فرماتے ہیں ۔ واعلم ان مذھب اھل الحق اثبات القدر و معناہ ان اللّٰہ تبارک و تعالی قدر الاشیاء فی القدم وعلم سبحانہ انھا ستقع فی اوقات معلومۃ عندہ سبحانہ و تعالی وعلی صفات مخصوصۃ فہی تقع علی حسب ماقدرھا سبحانہ وتعالے وانکرت القدریۃ ھذا اوزعمت ان سبحانہ وتعالی لم یقدرھا ولم یتقدم علمہ سبحانہ بھا وانھا مستانفۃ العلم ای انما یعلمہا سبحانہ بعد وقوعہا ’’اہل حق کا مذہب تقدیر کو ثابت کرنا ہے۔ اور اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ازل میں سب چیزوں کا اندازہ کر رکھا ہے اور جان رکھا ہے
Flag Counter