کہ وہ ان اوقات میں جو اس کو معلوم ہیں اور مخصوص صفات پر ہیں ضرور ضرور واقع ہوں گی۔ پس وہ اس اندازہ کے مطابق ہی واقع ہوتی ہیں اور قدریہ اس امر کا انکار کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا اندازہ نہیں کیا اور نہ اس نے ان کو پیشتر سے جان رکھا ہے۔ بلکہ ان کے متعلق علم مستانف ہے۔ یعنی اللہ سبحانہ ان کو ان کے وقوع کے بعد نئے علم سے جانتا ہے (نہ کہ علم قدیم سے)‘‘
پھر اس سے تھوڑا آگے امام خطابی سے نقل کر کے لکھتے ہیں :
قال الخطابی وقد یحسب کثیر من الناس ان معنی القضاء والقدر اجبار اللّٰہ سبحانہ العبد وقھرہ علی قدرہ وقضاہ ولیس الامر کما یتوھمونہ وانما معناہ الاخبار عن تقدم علم اللّٰہ سبحانہ وتعالی بمایکون من اکتساب العبد وصدورھا من تقدیر منہ وخلق لہا خیرھا وشرھا قال والقد راسم لما صدر مقدرا عن فعل القادر یقال قدرت الشئی وقدرتہ بالتخفیف والتثقیل بمعنی واحد والقضافی ھذا معناہ الخلق کقولہ فقضا ھن سبع سموت فی یومین ای خلقہن[1]
’’امام خطابی نے کہا کہ بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ قضا و قدر کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کا بندے کو اپنی قضا و قدر پر مجبور و مقہور کرنا۔ اور یہ بات جس طرح کہ ان لوگوں نے سمجھی ہے اس طرح نہیں ہے اس کے معنی تو صرف اللہ تعالیٰ کا اپنے علم سابق سے بندے کے ان کاموں کے کرنے اور ظاہر ہونے کی خبر ہے۔ جو اللہ کے پیدا کرنے سے پیدا ہوں گے۔ خواہ نیک ہوں یا بد۔ اور قدر تو اس فعل کا نام ہے جو قادر کے فعل سے اندازہ کیا گیا ہو۔ چنانچہ محاورہ ہے قدرت الشئی وقدرتہ مخفف اور مثقل ان دونوں کے
|