Maktaba Wahhabi

461 - 484
قرآن و حدیث سے ناواقفی کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں جو یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ قرآن و حدیث کا علم نہایت مشکل ہے اور ان کو سوائے مجتہد کے کوئی سمجھ نہیں سکتا اور زمانہ اجتہاد و مدت سے ختم ہو چکا ہے۔ یہ بات حضرت شاہ صاحب کے تراجم اور علم قرآن و حدیث کی تشویق و ترغیب کے سبب ذہنوں سے جاتی رہی اور لوگ شوق سے قرآن و حدیث کے سیکھنے میں لگ گئے اور اس عمل بالحدیث کی بھی بنیاد پڑ گئی۔ ہم اس جگہ ان تصانیف پر ریویو کرنے کی بجائے تصنیف کے متعلق اجمالی نظر سے حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ ممدوح کی بعض خصوصیات ذکر کرتے ہیں جن سے معلوم ہو جائے گا کہ ملک ہندوستان میں حضرت شاہ صاحب سے پیشتر علمی خدمت کس ڈھنگ پر تھی اور آپ نے اسے کس رنگ میں رنگ دیا۔ فللہ درہ۔ (۱) حضرت شاہ صاحب سے پیشتر قرآن شریف کی خدمت کی طرف مطلقاً توجہ نہیں تھی۔ قرآن شریف کا ترجمہ نصاب درسیات میں شامل نہیں تھا۔ اور معلوم ہے کہ قرآن شریف شریعت کا اصل ماخذ و منبع ہے اور علوم الہیہ کی تحصیل سے اصل مقصود یہی ہے کہ قرآن فہمی میں کمال حاصل ہو۔ لیکن جب قرآن پڑھا نہیں سیکھا نہیں اس کے اسلوب سے طبیعت مانوس ہوئی نہیں اور ان علوم الہیہ کی تحصیل کے بعد قرآن میں ان کے قواعد کا اجر و استعمال کیا نہیں گیا اور قرآن کی حلاوت کا ذوق و شوق دل میں موجزن ہوا نہیں تو اس کے فہم میں کمال کیسے ہو گا اور کہاں سے ہو گا؟ محض ذہنی عظمت زیادہ سے زیادہ محض ایمان کے درجے تک رکھتی ہے لیکن اطمینان کے درجے تک نہیں پہنچا سکتی۔ آپ کے والد شاہ عبدالرحیم صاحب رحمہ اللہ نے اس ضرورت کو محسوس کیا اور قرآن شریف کی اشاعت و ترویج کے لئے ایک درسگاہ کھولی۔ جس کا نام آپ کے نام نامی پر مدرستہ رحیمیہ ہوا۔ شاہ عبدالرحیم کی وفات کے بعد آپ کو اس درسگاہ میں جو برابر بارہ سال تعلیم و تدریس کا موقع ملا اس میں آپ نے اپنے طلباء میں قرآن شریف سے استدلال کرنے
Flag Counter