مبارکا فیہ۔ اللہم زیننی بالعمل کما کرمتنی بالعلم و جملنی بالتقوی کما احسنت علی بنور الفہم۔
رجوع بمطلب: اس کے بعد حضرت شاہ صاحب اپنے والد ماجد کے طریق عمل کی نسبت فرماتے ہیں مخفی نماند کہ حضرت ایشاں در اکثر امور موافق مذہب حنفی عمل میکر دندالا بعض چیز ہا کہ بحسب حدیث یا وجدان بمذہب دیگر ترجیح می یافند از انجملہ آنست کہ دراقتداء سورہ فاتحہ می خواندندو در جنازہ نیز (صفحہ۶۹)
اس سے صاف ظاہر ہے کہ شاہ عبدالرحیم صاحب بھی اہل حدیث تھے اور حدیث نبوی پر عمل کرنے میں ان کے رستے میں کسی معین مذہب کی رکاوٹ ہرگز نہ تھی اور اسی کا نام ترک تقلید ہے جس پر اہل حدیث سے نزاع کی جاتی ہے۔
۲۔ حضرت شاہ والی اللہ صاحب سے پیشتر اس ملک میں علم حدیث کی بنیاد تو پڑ چکی تھی لیکن تقلید کے عام رواج کی وجہ سے عمل بالحدیث کی بحثیں لکھیں ۔ حجتہ اللہ میں کئی ایک ابواب اور الانصاف و عقد الجید خاص کتابیں اسی امر کے لئے تحریر کیں ۔ نیز مؤطا امام مالک رحمہ اللہ کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا جو کتب حدیث کی ماں کہلانے کی مستحق ہے جس سے لوگوں میں علم و عمل ہر دو کا شوق پیدا ہو گیا۔ اس میں جابجا محدثین کی تعریف ہے اور ان کے مذہب کو ترجیح دی ہے۔ چنانچہ مصفے ترجمہ مؤطا کے دیباچے میں فرماتے ہیں ۔
باید دانست کہ سلف در استنباط مسائل و فتاوی بر دو وجہ بودند یکے آنکہ قرآن و حدیث و آثار صحابہ جمع میکردنداز انجا استنباط میمنو دند وایں طریقہ اصل راہ محدثین است و دیگر آنکہ قواعد کلیہ کہ جمعے از ائمہ تنقیح و تہذیب آں کردہ اندیا دگیرند بے ملاحظہ ماخذ آنہا۔ پس ہر مسئلہ کہ واردمی شد جواب آں از قواعد طلب می کردند و ایں طریقہ اصل راہ فقہا است ۔۱۲(مصفی صفحہ۴)
آپ کی تصانیف سے ہندوستان کی علمی دنیا میں ایک عظیم انقلاب پیدا ہو گیا اور
|