خواص آپ کے فضائل و کمالات کا اعتراف کرنے لگے۔ حتی کہ آپ کے استاد شریعت اور شیخ طریقت شیخ ابن حجر مکی رحمہ اللہ مصنف صوائق محرقہ نے بھی آپ کی شاگردی اختیار کی اور آپ کے حلقہ ارادت میں منسلک ہو گئے اور آپ سے خرقہ تصوف زیب تن فرمایا۔
تصانیف: آپ کی تصانیف ایک سو سے زائد ہیں اور سب نافع و مفید ہیں ۔ ان میں سے علم حدیث میں قابل قدر خدمت یہ ہے کہ امام سیوطی کی کتاب جمع الجوامع[1]کو فقہی ابواب کی ترتیب پر مرتب کیا۔ آپ کے استاد ابوالحسن بکری مکی اس کتاب کی نسبت فرماتے ہیں کہ امام سیوطی رحمہ اللہ کا احسان تمام لوگوں پر ہے اور شیخ علی متقی کا احسان امام سیوطی پر ہے۔[2]نیز حضور نواب صاحب مرحوم ابجد العلوم[3]میں فرماتے ہیں ۔
قد وقفت علی بعض تو ا لیفہ فوجد تھا نافعۃ مفیدۃ ممتعۃ تامۃ
(صفحہ۸۹۵)
میں آپ کی بعض تصانیف سے واقف ہوا تو ان کو نفع مند مفید اور کامل کار آمد پایا۔
قبولیت و اشارہ غیبی: آپ کے شاگرد و خلیفہ شیخ عبدالوہاب فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں ایک عالیشان مکان دیکھا۔ جو بہشت بریں کے طور پر انوار و انہار سے آراستہ و پیراستہ ہے اور شیخ علی متقی اس میں بیٹھے ہیں ۔ اس مکان کے صحن میں بعض چھوٹی اور بعض بڑی نہریں اور نالیاں (لبا لب) بہ رہی ہیں ۔ حضرت شیخ صاحب مرحوم نے مجھے ایک نہر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ جامع صغیر ہے۔ اور ایک نالی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ فلاں رسالہ ہے۔ پھر دوسری نالی کی طرف کہ یہ فلاں
|