گفتہ شود بخاری تا وقتیکہ از مالک متصل مرفوع یا بدعدول نمی کنداز وے بروایت غیروے۔ مگر آنکہ بشرط خود نیا بدپس شواہد می آرد برائے او۔ دربسیارے از مواضع آثار موطا را استشہادمی کند باشارات حدیث و ایما آت آں (صفحہ۹)
امر چہارم:۔ یعنی شہرت و قبولیت کے متعلق تو مؤطا کو ایک ایسی خصوصیت حاصل ہے۔ جو کسی دیگر کتاب کو نہیں ہو سکی۔ جس قدر حیثیات سے لوگوں کے طبقات کی تقسیم ہو سکتی ہے ان سب کے رو سے ہر طبقہ کی ایک خاصی جماعت نے مؤطا کو روایت کیا۔ اور اس کے لئے دور دست بلاد اسلامیہ سے سفر کر کے مدینہ طیبہ کی خاک پاک کو سرمہ چشم بنایا۔ حضرت شاہ صاحب مصفی میں فرماتے ہیں ۔
اما شہرت مؤطا پس از امام مالک رحمہ اللّٰہ مؤطا راجم غفیر ازہر فریق کردہ انداز پادشاہاں رشید و امین و مامون بلکہ گفتہ اندکہ مہدی و ہادی نیز روایت کردہ اند۔ و از مجتہدین شافعی رحمہ اللّٰہ و محمد بن الحسن بلا واسطہ واحمد عن عبدالرحمن بن مہدی و جماعات عنہ و ابو یوسف عن رجل عنہ۔ و از محدثاں جماعاتے کہ حصر آنہا میسر نیست۔ واز اصحاب مالک یحیی بن یحیی مصمودی و ابن قاسم و رضیع۔ واز صوفیاء ذوالنون مصری وغیرآں ۔ واز اہل مصر و شام و عراق و یمن و خراسان ہمہ روایت کردہ اند (صفحہ۸)
’’ مؤطا کی شہرت کی تفصیل یہ ہے کہ اسے امام مالک رحمہ اللہ (کی زبان) سے ہر طبقہ کی جماعت کثیر نے روایت کیا ہے (چنانچہ) بادشاہوں میں سے ہارون رشید اور (اس کے دونوں بیٹوں ) امین اور مامون رشید نے۔ بلکہ کہتے ہیں کہ خلیفہ مہدی اور ہادی نے بھی روایت کیا ہے۔ اور ائمہ مجتہدین میں سے امام شافعی رحمہ اللہ اور امام محمد بن حسن نے تو بے واسطہ (بالمشافہ) اور امام احمد رحمہ اللہ نے عبدالرحمن بن
|