و مالک روزے از مطرف بن عبداللّٰہ پر سید کہ مرد ماں چہ میگویند درمؤطا؟ گفت الناس رجلان محب مطری و حاسد مفتری مرد ماں دو قسم اند بعض دوست مبالغہ کنندہ است درثنا و بعض حسد کنندہ افتراء نمائندہ پس گفت مالک ان مدبک عمر فتری مایرید اللّٰہ بہ اگر دراز کردہ شود در حق تو عمر را خواہی دید آنچہ ارادہ کردہ است خدا تعالی با او (صفحہ۱۰)
’’ امام مالک رحمہ اللہ نے ایک روز (اپنے شاگرد) مطرف بن عبداللہ سے پوچھا کہ لوگ مؤطا کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا لوگ دو قسم کے ہیں ۔ بعض دوست ہیں جو صفت و ثنا میں مبالغہ کرتے ہیں ۔ اور بعض حاسد ہیں جو افتراء باندھتے ہیں ۔ اس پر آپ نے فرمایا (اے مطرف!) اگر تیری عمر (کچھ) دراز ہوئی تو تو دیکھ لے گا کہ اللہ تعالیٰ اس (کتاب) سے کیا ارادہ کرتا ہے۔‘‘
خاکسار کہتا ہے کہ اگرچہ امام مالک رحمہ اللہ نے اس پیشگوئی کی نسبت الہام کا دعوی نہیں کیا۔ لیکن صورت واقعہ نے بتا دیا کہ یہ بات خود ستائی کے خیال اور ہوائے نفسانی سے نہیں نکلی بلکہ یہ ایک القائے ربانی تھا اور امام مالک رحمہ اللہ جیسے ’’صادق الاحوال‘‘ بزرگوں پراللہ تعالیٰ کا ایسا فیض کچھ تعجب نہیں چنانچہ حدیث میں ہے۔ رب مدفوع بالابواب لو اقسم علی اللّٰہ لابرہ (مشکوٰۃ صفحہ۴۳۸)
غرض مؤطا کی اولیت ایک تو زمانہ کے لحاظ سے ہے۔ دیگر رتبہ کے لحاظ سے بھی ہے کہ ترتیب فقہی و انتخاب صحاح میں یہ کتاب اپنے بعد کے مصنفین کے لئے رہنما و پیشوا ٹھیری مابعد کی کتابوں میں سب سے افضل واصح صحیحین ہیں ۔ ان کا علو مرتبہ سب میں مسلم ہے۔ ان تینوں کتابوں کو مجتہدانہ و محدثانہ نظر سے مطالعہ کرنے والے کو یہ دونوں ترتیب و انتخاب میں مؤطا کے نقش قدم پر پائی جائیں گی۔ چنانچہ حضرت شاہ صاحب مصفی میں فرماتے ہیں ۔
و اما تلقی اصحاب کتب ستہ آنرا بقبول پس اظہر ازان ست کہ
|