آپ سے پیشتر جو تصانیف ہوئیں ۔ وہ اس طرز پر نہ تھیں ۔ اور خالص صحاح کا مجموعہ تھیں اور نہ وہ درس تدریس کے لائق سمجھی گئیں ۔ بلکہ صرف مصنف کی یادداشت سمجھی گئیں اور داخل تدریس نہ ہونے کی وجہ سے ان کا سلسلہ آگے کو نہ چلا۔ لیکن ’’مؤطا‘‘ کو اول تو خود امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے درس حدیث میں رکھا۔ اور اس نظر سے یہ پہلی کتاب ہے جس کا قرآن کے بعد درس دیا گیا۔ اور امام مالک رحمہ اللہ کے شائق شاگردوں نے (جو وہ بھی امام فن ہوئے) امام مالک سے روایت کر کے دور دست بلاد میں اس کی اشاعت کی۔ جس سے اس کی شہرت تمام بلاد اسلامیہ میں ہو گئی اور لوگوں نے اسے نہایت شوق و محبت سے ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔ امام مالک رحمہ اللہ کی دیکھا دیکھی آپ کے وقت میں جن لوگوں نے تصانیف لکھیں ۔ وہ بھی آگے کو نہ چلیں چنانچہ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں ۔
وجماعت دیگر نیز بتصانیف پرداختند پس گفۃ شر بامام مالک رحمہ اللّٰہ تو نفس خودرا در محنت انداخۃ بودی بتصنیف ایں کتاب۔ وحالامرد ماں امثال آں ساختند فرمود خواہید دانست کۃ مقبول نہ خواہد شدازیں تصانیف مگر آنچہ باں وجہ اللّٰہ را ارادہ کردہ باشند۔ پس بعد زمانے نام و نشاں آں کتب شنیدہ نشد گویا درچاہ انداختہ شد آنہارا (مصفی صفحہ۱۰)
’’ دوسرے لوگوں نے بھی تصنیفات شروع کیں تو امام مالک رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ آپ نے اپنے آپ کو اس کتاب (مؤطا) کی تصنیف سے (بہت) محنت میں ڈال رکھا تھا۔ مگر اب تو دوسرے لوگوں نے بھی اس کی مثل بنا ڈالی ہیں ۔ (اس پر) آپ نے فرمایا‘ تم کو معلوم ہو جائے گا کہ ان تصانیف میں سے کوئی قبول نہ ہو گی مگر وہی جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی چاہی گئی ہے۔ پس کچھ زمانہ کے بعد ان کتابوں کا نام و نشان بھی سنائی نہ دیا۔ گویا کہ ان سب کو کنوئیں میں ڈال دیا گیا۔‘‘
اس کے بعد حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں ۔
|