Maktaba Wahhabi

399 - 484
سے روایت کرنے کی نسبت بڑے بڑے بزرگ اہل علم کا اتفاق ہے اور حدیث والے لوگ اسے (خوب طرح) آزما کر سچائی اور بھلائی دیکھ چکے ہیں ۔ خصوصاً جب کہ امام ابن شہاب زہری اس کی تعریف کرتے ہیں اور امام مالک کے قول کی نسبت رحیم (محدث) سے تذکرہ کیا تو اس نے کہا یہ بات اس کی (روایت) حدیث کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس لئے تھی کہ آپ (امام مالک) نے اسے (ابن اسحاق کو) متہم بالقدر جانا۔‘‘ پھر اس سے تھوڑا آگے لکھتے ہیں ۔ وقال موسی بن ھارون سمعت محمد بن عبداللّٰہ بن نمیر یقول کان محمد بن اسحق یرمی بالقدر وکان ابعد الناس منہ۔[1] موسیٰ بن ہارون کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن عبداللہ بن نمیر کو کہتے سنا کہ محمد بن اسحاق پر قدریہ ہونے کی تہمت تھی اور وہ اس سے سب لوگوں سے زیادہ دور تھے (یعنی ہرگز ہرگز قدریہ نہیں تھے) یہ الزام اسی طرح کا ہے جس طرح امام ابو حنیفہ کو مرجیہ میں سے کہا جاتا ہے حالانکہ آپ ارجاء سے (جس سے اعمال بیکار سمجھے جائیں ) بمراحل بعید ہیں ۔ چنانچہ ابن حجر ہیثمی مکی رحمہ اللہ ’’الخیرات الحسان‘‘ میں فرماتے ہیں ۔ اولانہ لما قال الایمان لا یزید ولا ینقص ظن بہ الارجاء بتاخیر العمل عن الایمان ولیس کذلک اذ عرف منہ المبالغۃ فی العمل والاجتہاد فیہ واما ثالثا قال ابن عبدالبرکان ابو حنیفۃ یحسد و ینسب الیہ مالیس فیہ و یختلق علیہ مالا یلیق بہ۔[2] چونکہ امام صاحب کا قول ہے کہ ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے نہ کم ہوتا ہے۔ اس پر کسی کو ارجاء بمعنی عمل کے ایمان سے موخر ہونے کا ظن ہو گیا اور یہ بات اس طرح نہیں کیونکہ آپ کا عمل میں مبالغہ اور کوشش مشہور و معروف ہے
Flag Counter