اور تیسری وجہ یہ کہ حافظ ابن عبدالبر نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا حسد کیا جاتا تھا۔ اور آپ کی طرف وہ وہ باتیں نسبت کی جاتی تھیں جو آپ میں تھیں اور آپ کو وہ وہ بہتان لگائے جاتے تھے جو آپ (کی شان) کے لائق نہ تھے۔
نیز حافظ صاحب فرماتے ہیں ۔
قال یعقوب وسالت ابن المدینی حدیث محمد بن اسحق عندک فقال صحیح قلت لہ فکلام مالک فیہ قال مالک لم یجالسہ ولم یعرفہ (تھذیب التھذیب جلد نہم صفحہ۴۲)
’’یعقوب (محدث) کہتے ہیں کہ میں نے امام علی بن مدینی (استاد امام بخاری) سے پوچھا کہ آپ کے نزدیک محمد بن اسحق کی حدیث کیسی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ صحیح ہوتی ہے میں نے کہا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا جو قول ان کے متعلق ہے؟ جواب دیا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے ان کی مجالست نہیں کی اس لئے ان کونہیں پہچانا۔‘‘
دوم یہ کہ رئیس الحنفیہ شیخ ابن ہمام رحمہ اللہ جو متاخرین حنفیہ میں سے مرتبہ اجتہاد تک پہنچے ہیں فتح القدیر شرح ہدایہ میں محمد بن اسحاق کی بغائب تعریف و توثیق کرتے ہیں ۔ پس حضرات حنفیہ کو ان کی نسبت کوئی کلام نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ لکھتے ہیں ۔
ھذا ان صح الحدیث بتوثیق ابن اسحق وھو الحق الابلج و ما نقل من کلام مالک فیہ لا یثبت ولو صح لم یقبلہ اھل العلم کیف و قال شعبۃ فیہ ھو امیر المومنین فی الحدیث و روی عنہ مثل الثوری و ابن ادریس و حماد بن زید و یزید بن زریع و ابن علیۃ و عبدالوارث و ابن المبارک و احتملہ احمد و ابن معین و عامۃ اھل الحدیث غفراللّٰہ لہم وقد اطال البخاری فی توثیقہ فی کتاب القراۃ خلف الامام و ذکرہ ابن حبان فی الثقات و ان مالکا رجع عن الکلام فی ابن اسحق و اصطلح معہ و بعث الیہ ھدیۃ (فتح القدیر جلد اول مطبوعہ نولکشور صفحہ۹۰)
|