وجوبہ علی من خشی النسیان ممن یتعین علیہ تبلیغ العلم۔[1]
یعنی سلف صالحین (صحابہ و تابعین) نے علم (حدیث) کے لکھنے اور نہ لکھنے میں اختلاف کیا ہے۔ اگرچہ (بعد میں ) علم کے لکھنے کے جواز پر بات ٹھیر گئی اور اجماع قائم ہو گیا۔ بلکہ اس کے استحسان پر یعنی لکھنے کے مستحسن ہونے پر۔ بلکہ اس شخص پر جو تبلیغ علم کے لئے متعین ہو اور اسے نسیان کا اندیشہ ہو اس کا لکھنا واجب ہونا بھی بعید نہیں ۔
امام بخاری رحمہ اللہ قائلین جواز میں سے ہیں ۔ ان کا کئی ایک کتب احادیث کا مصنف ہونا اس کی کافی شہادت ہے۔ آپ نے اس باب کے ضمن میں چار احادیث ذکر کی ہیں ۔
اول: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صحیفہ والی جو سابقاً گذر چکی دوم۔ ابو شاہ والی۔ یہ بھی اوپر گذر چکی۔ سوم۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی روایت کہ میں نہ لکھتا تھا اور عبداللہ بن عمرو بن عاص لکھ لیا کرتے تھے۔ یہ بھی گزر چکی۔ چہارم۔ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض موت میں اپنی وفات شریف سے چار روز پہلے کچھ لکھوانا چاہا۔
اس حدیث کے ذکر سے بھی امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ غرض ہے کہ یہ کتابت قرآن شریف کی آیت نہ تھی۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آپ لکھوا کر نہ ہو سکا تو زبانی ہی تبلیغ فرما دیتے۔ لیکن یہ ہرگز ثابت نہیں ہے کہ آپ نے اس کے بعد کوئی آیت قرآنی ذکر کی ہو۔ لہٰذا لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو کچھ آپ لکھوانا چاہتے تھے غیر قرآن تھا۔ پس حدیث کا لکھنا جائز ہوا۔[2]
خاتمتہ الحفاظ ان احادیث کی شرح کے بعد بعنوان ’’تنبیہ‘‘ امام بخاری کی اس ترتیب احادیث اربعہ کی نسبت فرماتے ہیں ۔
(تنبیہ) قدم حدیث علی انہ کتب عن النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم یطرقہ احتمال ان یکون انما کتب ذلک بعد النبی صلی اللّٰہ علیہ
|