و سلم و لم یبلغہ النہی و ثنی بحدیث ابی ھریرۃ و فیہ الامر بالکتابۃ وھو بعد النہی فیکون ناسخا و ثلث بحدیث عبداللّٰہ بن عمرو وقد بینت ان فی بعض طرقہ اذن النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم لہ فی ذلک فہوا قوی للاستدلال للجواز من الامران یکتبوا لابی شاہ لاحتمال اختصاص ذلک بمن یکون امیا او اعمی و ختم بحدیث ابن عباس الدال علی انہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم ھم ان یکتب لامۃ کتابا یحصل معہ الامن من الاختلاف وھو لایھم الابحق۔[1]
امام بخاری نے سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ والی حدیث بیان کی کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے (یہ باتیں ) لکھیں اس میں یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ آپ نے وہ امور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لکھے ہوں ۔ اور آپ کو ممانعت (کتابت حدیث) کی خبر نہ پہنچی ہو۔ (اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے) دوسرے مرتبہ پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث بیان کی اور اس میں (حدیث) لکھنے کا حکم موجود ہے۔ اور یہ ممانعت کے بعد کی ہے پس یہ حدیث ناسخ ہے (اور حدیث ممانعت منسوخ) (اس کے بعد امام بخاری نے) تیسرے مرتبہ پر حضرت عبداللہ بن عمرو والی حدیث بیان کی ہے۔ اور میں (حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ) بیان کر چکا ہوں کہ اس کے بعض طرق میں یہ بھی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو کو کتابت کا اذن دیا تھا۔ پس یہ حدیث جواز کتابت حدیث کے لئے ابو شاہ کے واسطے لکھنے کے امر والی حدیث کی نسبت زیادہ قوی ہے کیونکہ اس میں یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ یہ امر ان پڑھ یا اندھے سے مخصوص ہے ۔ (اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے) اخیر پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ والی حدیث بیان کی ہے جو اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا قصد کیا کہ امت (مرحومہ) کے لئے ایک
|