Maktaba Wahhabi

382 - 484
(قرآن) کے ساتھ مخلوط (نہ) ہو جائے اور قاری پر مشتبہ (نہ) ہو جائے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ممانعت منسوخ ہو۔ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (صحابی) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے ایک حدیث کی بابت پوچھا (اور انہوں نے بتائی) تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے لکھنے کا حکم کیا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آپ کی کوئی حدیث نہ لکھی جائے۔ پس حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے مٹا دیا۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ایسا کہنا بھی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی طرح ہے۔ ورنہ حضرت زید رضی اللہ عنہ تو کاتب قرآن ہونے کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محرر (سکریٹری) بھی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط بھی لکھا کرتے تھے۔ اور ان سب میں آیات قرآن کے علاوہ جو کچھ ہوتا تھا۔ وہ آنحضرت کے اپنے الفاظ ہوتے تھے۔ اور انہی کو حدیث کہتے ہیں ۔ پس انہی کے فعل سے احادیث کا لکھنا ثابت ہوا۔ یہ امر کہ کتابت حدیث کے متعلق اختلاف صرف پہلی صدی میں رہا۔ پھر سب جواز پر متفق ہو گئے۔ اس سے بھی ثابت ہو سکتا ہے کہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے حکم سے جمع و کتابت حدیث پر کسی امام نے انکار نہ کیا۔ حالانکہ اس وقت ائمہ حدیث کثرت سے تھے۔ اسی طرح ’’مکمل اکمال الاکمال‘‘ میں بھی[1]ہے۔ امام بخاری (علیہ رحمتہ اللہ الباری) نے اپنی صحیح کی کتاب العلم میں کتابتہ العلم کی سرخی سے باب باندھا ہے۔ خاتمتہ الحفاظ اس کی شرح میں فرماتے ہیں ۔ السلف اختلفوا فی ذلک عملا وترکا وان کان الامر استقر و الاجماع انعقد علی جواز کتابۃ العلم بل علی استحسانہ بل لا یبعد
Flag Counter