کرہ کثیر من السلف کتب العلم لھذا النھی و اجازہ الاکثر ثم وقع الاجماع علی جوازہ لاذنہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم لا بن عمر و فی الکتاب (مہ) و لقولہ ص اکتبو لابی شاہ ولحدیث شکا الیہ رجل سوء الحفظ فقال لہ استعن بیمینک و کتب صلی اللّٰہ علیہ و سلم کتابا فی الصدقات والدیات و قد امر صلی اللّٰہ علیہ و سلم بالتبلیغ عنہ و اذا لم یکتب ذھب العلم و الحدیث محمول عند بعضہم علی کتب الحدیث مع القران فی صحیفۃ واحدۃ خوف ان یختلط بہ و یشتبہ علی القاری و یحتمل ان النھی منسوخ و دخل زید بن ثابت علی معاویۃ فسالہ عن حدیث فامر بکتبہ فقال لہ زید ان النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم امر ان لا یکتب شئی من احادیثہ۔[1]
یعنی اس ممانعت کی وجہ سے بہت سے سلف نے علم کے لکھنے کو مکروہ سمجھا اور اکثر نے اسے جائز جانا۔ پھر اس کے جواز پر اجماع ہو گیا۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمرو بن عاص کو لکھنے کی اجازت دی تھی اور فرمایا تھا کہ ابو شاہ کو یہ مسائل لکھ دو اور اس حدیث کی وجہ سے کہ ایک شخص نے اپنے حافظے کی خرابی کی شکایت کی۔ تو آپ نے فرمایا۔ اپنے داہنے ہاتھ سے مدد لے۔ (یعنی لکھ لیا کر) نیز اس لئے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقات و دیات کے متعلق نوشت لکھوائی تھی۔ نیز اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کا امر کیا ہے۔ تو اگر علم لکھا نہ جائے تو گم ہو جائے اور یہ حدیث (ممانعت) بعض کے نزدیک اس امر پر محمول ہے کہ حدیث (نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) قرآن شریف کے ساتھ ایک ہی صحیفہ میں (نہ لکھی جائے۔ اس ڈر سے کہ اس
|