نکتبکم و لن نجعلہ قرانا ولکن احفظو اعنا کما حفظنا نحن عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔[1]
’’ میں نے حضرت ابو سعید خدری کی خدمت میں عرض کی کہ (جو حدیثیں آپ ہمیں سناتے ہیں وہ) ہم کو لکھوا دیا کریں ۔ کیونکہ ہمیں زبانی یاد نہیں رہتیں ۔ اس پر آپ نے فرمایا نہیں ہم تمہیں لکھوائیں گے نہیں ۔ اور ہم اسے (لکھ کر) قرآن نہیں بنا ڈالیں گے۔ لیکن تم بھی ہم سے (سن کر) حفظاً یاد کر لو جس طرح ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (سن کر) حفظاً یاد کر لی تھیں ۔‘‘
اس سے صاف ثابت ہے کہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ حدیث روایت کیا کرتے تھے۔ لیکن بموجب اپنی مذکورہ بالا روایت کے نہ لکھتے تھے نہ لکھواتے تھے نہ لکھنے کے قائل تھے بلکہ خود بھی حافظ تھے اور اپنے شاگردوں کو بھی حفظاً یاد کرواتے تھے اور سنت پر عمل کرتے تھے بلکہ احادیث کو تحریر میں نہ لانا بھی باتباع حدیث تھا۔ پس اس حدیث ممانعت کا مطلب صرف اتنا ہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حفاظت قرآن کے لئے کتابت حدیث سے منع فرما دیا تھا نہ کہ اتباع حدیث سے۔ اسی لئے کتابت حدیث کے متعلق علماء حدیث کے دو گروہ ہو گئے۔ ایک گروہ تو حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی طرح صرف حفظاً یاد کرنے کا قائل تھا۔ مثلاً صحابہ میں سے زید بن ثابت وغیرہ اور تابعین میں سے قتادہ رحمہ اللہ ‘ محمد بن سیرین رحمہ اللہ وغیرہما اور دوسرا گروہ حفظاً و کتاباً ہر دو طرح کا قائل ہے۔ مثلا صحابہ میں سے عبداللہ بن عمرو بن عاص رحمہ اللہ اور عبداللہ بن عمر رحمہ اللہ اور تابعین میں سے حضرت حسن بصری وخلیفہ عمر بن عبدالعزیز و غیرہما۔ اور ائمہ میں سے امام مالک رحمہ اللہ ‘ امام شافعی رحمہ اللہ ‘ امام احمد رحمہ اللہ ‘ امام بخاری رحمہ اللہ ‘ امام نسائی رحمہ اللہ ‘ امام ابو داؤد رحمہ اللہ اور امام ترمذی رحمہ اللہ وغیرہم مصنفین کتب حدیث رحمہم اللہ اجمعین۔
یہ اختلاف شروع میں رہا۔ پیچھے ساری امت اس پر متفق ہو گئی کہ حدیث کا لکھنا جائز ہے۔ بلکہ بذیل حدیث لا تکتبو اعنی ۔۔۔۔الخ ’’اکمال اکمال العلم‘‘ میں لکھا ہے۔
|