Maktaba Wahhabi

361 - 484
کے پاس بصد ادب و تکریم بطور تبرک استنبول (قسطنطنیہ) میں پہنچایا گیا۔ جنہوں نے اس کے فوٹو چھپوا کر دنیا کے ہر قطر میں اس کی اشاعت کر دی۔ الحمدللہ۔ ثم الحمدللہ کہ اس ذرہ بے مقدار گنہگار سیاہ کار کو بھی یہ تحفہ شاہوار و گوہر آبدار نصیب ہوا۔ محدثین (رحمہم اللہ) نے اپنے حافظہ خد داد سے اس خط کے الفاظ کو جس طرح ضبط کیا ہے ہم نے اسے اوپر نقل کر دیا ہے۔ اس میں اور اس فوٹو کے الفاظ میں کوئی قابل لحاظ فرق نہیں ہے۔ کیونکہ دونوں کے الفاظ برابر ایک ہی ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس مکتوب عکسی کا رسم الخط قدیم ہے۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سعادت مہد میں عربوں میں مروج تھا۔ اور جس رسم الخط میں اب ہم لکھتے پڑھتے ہیں وہ بعد کے زمانوں میں بہت دفعہ کی اصلاح کے بعد قائم ہوا ہے۔ اسی لئے اس کو خط نسخ کہتے ہیں ۔ اس مکتوب عکسی کے الفاظ میں اور محدثین کے محفوظ الفاظ میں صرف یہ فرق ہے کہ محدثین کی روایت میں ’’ادعوک بدعایۃ الاسلام‘‘ ہے۔ اور ایک روایت میں ’’بداعیۃ الاسلام‘‘ بھی ہے۔ اور اس مکتوب شریف میں ’’ادعوک بدعوۃ الاسلام‘‘ ہے۔ عربی زبان کا تھوڑا سا علم صرف جاننے والے اصحاب بھی جانتے ہیں ۔ کہ دعا یدعوا کا مصدر کئی طرح پر آتا ہے۔ دعاء‘ دعوی‘ دعوۃ اور داعیتہ سب مصدر ہیں چنانچہ ’’مجمع البحار‘‘ میں لفظ دعا کے ضمن میں اسی حدیث کے متعلق فرماتے ہیں ۔ ادعوک بدعایۃ الاسلام ای بدعوتہ وھی کلمۃ الشہادۃ التی یدعی الیہا اہل الملل الکافرۃ وروی بداعیۃ مصدر کالعافیۃ اور اس سے پہلے فرماتے ہیں ۔ الدعوی الادعاء فما کان دعوھم والدعا و اخر دعوھم ولہ دعوۃ الحق چوتھی قسم: کی تحریروں کی مثال یہ ہے کہ صحیح بخاری شریف میں حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اکتبو الی من تلفظ بالاسلام من الناس[1]
Flag Counter