Maktaba Wahhabi

351 - 484
زور دار الفاظ کو ذرا کھول کر بیان کرنا چاہتے ہیں ۔ (۱) قولہ قام بہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم: (بیان کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے) اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں ۔ اول سامع کا آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت تقریر (قیام) کو محفوظ رکھنا دوم اس بات کا اظہار کہ مضمون بیان کردہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں خاص اہمیت رکھتا تھا کہ اس کو کھڑے ہو کر بیان فرمایا۔ (۲) قولہ الغدمن یوم الفتح: (فتح مکہ کے دوسرے روز) اس میں یہ جتایا ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تاریخ و زمانہ بھی محفوظ ہے۔ (۳) قولہ سمعتہ اذ نای: (آپ کے اس ارشاد کو میرے دونوں کانوں نے سنا) اس میں بذات خود بلاواسطہ سننے کی تصریح ہے۔ جس میں اس وہم کا ازالہ ہے کہ شائد کسی دوسرے سے سن کر کہا ہو۔ نیز دونوں کانوں سے سننے کے ذکر میں تحقیق و ثبوت سماع میں تاکید و مبالغہ حسن ہے۔ اور کمال توجہ کا اشارہ بھی ہے۔ (۴) قولہ وعاہ قلبی: (آپ کے ارشاد کو اس طرح دل میں بحفاظت تمام بٹھا لیا۔ جس طرح مظروف کو ظرف اپنے اندر لے لیتا ہے) اس میں حفظ و فہم کلام اور اس پر پورے طور سے حاوی ہونے کو بوجہ ابلغ بیان کیا ہے۔ (۵) قولہ ابصرتہ عینای: (کلام کرتے وقت میری دونوں آنکھیں آپ کے دیدار سے مسرور تھیں ) اس سے یہ ظاہر کیا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ تو میں بالمشافہ آپ کے دیدار پر انوار سے بہرہ اندوز ہو رہا تھا۔ ایسا نہیں کہ کسی اوٹ اور حجاب کے پرے بیٹھا ہوا صرف آواز ہی سن رہا تھا۔ کیونکہ متکلم کو اپنی آنکھ سے دیکھنا کلام کے سمجھنے اور محفوظ رکھنے میں بہت مدد دیتا ہے۔ اور دونوں آنکھوں سے دیکھنے کا ذکر کرنے میں ثبوت روایت میں مبالغہ اور تحقق یقینی کا فائدہ ہے۔ نیز اس میں سننے والے کا کمال اشتیاق بھی پایا جاتا ہے۔ اور شوق و ذوق کی حالت میں سنی ہوئی بات بھولا نہیں کرتی۔ پس جب دل کان اور آنکھ ہرسہ ذرائع علم کا ذکر کیا اور کمال اشتیاق و توجہ کو ثابت کیا تو گویا جمیع وجوہ فہم و حفظ کامل کا دعوی کیا۔ بلاغت کلام کو جاننے والے اصحاب
Flag Counter