Maktaba Wahhabi

352 - 484
سمجھ سکتے ہیں کہ یادداشت کی پختگی کو اس سے زیادہ کن الفاظ میں بیان کر سکتے ہیں ؟ اس تبلیغ کا زمانہ: عمرو بن سعید سے حضرت ابو شریح صحابی کی یہ گفتگو مشہور و معروف تابعی یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد کی ہے کیونکہ یہ عمرو بن سعید یزید[1]کی طرف سے مدینہ طیبہ پر متعین تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحابی کی نظر میں یہ حدیث نبوی نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ تک ایسی ہی تازہ ہے جیسی کہ کل کی بات فافھم ولا تکن من القاصرین۔ (۳) صحابہ رضی اللہ عنہ کو جو الفت و محبت‘ عقیدت و ارادت‘ شوق و شغف‘ عشق و دل بستگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے تھی۔ وہ بھی ان کو آپ کے اقوال و افعال کے محفوظ رکھنے میں قوی مدد دیتی تھی۔ کیونکہ محب اپنے محبوب کی اداؤں اور باتوں کو ضائع جانے نہیں دیتا۔ خاص کر جب کہ وہ محبوب نہایت درجے کا حکیم و فہیم اور محب کی نظر میں عظیم القدر و کبیر الشان ہو۔ کہ اس کی ہر وقت وہر سکون اور ہر قول وہر خاموشی کسی خاص مصلحت پر مبنی ہو۔ اس کی مثال تو یوں سمجھنی چاہئے۔ کہ جس طرح بارش کی بوندیں پیاسی زمین میں جذب ہو جاتی ہیں ۔ اسی طرح محبوب کی ادائیں اور باتیں محب کے لوح خاطر پر نقش ہو جاتی ہیں ۔ گویا محب کا دماغ محبوب کے اقوال و افعال کے لئے ایک عکسی آئینہ ہے جس میں ان کی صورت منطبع ہو جاتی ہے۔ اور محب کا سینہ محبوب کے اقوال کے لئے فونوگرام کی پلیٹ ہے۔ جس میں وہ سب جذب ہو جاتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کی الفت و محبت محتاج بیان نہیں ۔ محبت ہی تو تھی۔ جس نے ان کی نظر میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی تعظیم اور آپ کے احکام و ارشادات کی تعمیل اور آپ کی سیرت و سنت کی اتباع کے سامنے ان کے مال و جان‘ عزت و آبرو‘ وطن و مکان‘ زن و فرزند سب کچھ ہیچ و بے حقیقت کر دئے تھے۔ وہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کو اپنی مرضی و خواہش پر مقدم رکھتے تھے۔ اور آپ کی غلامی کو دو جہان کی سرداری سمجھتے تھے۔ اسی محبت و عقیدت کا اثر تھا جس نے عروہ بن مسعود ثقفی
Flag Counter