Maktaba Wahhabi

335 - 484
(ا) بارونق رکھے اللہ تعالیٰ چہرہ اس بندے کا جس نے میری بات سنی پس اسے حفظ کر لیا اور یاد رکھا پھر اسے ادا کیا (الحدیث رواہ الترمذی و ابوداؤد دو غیرھما مشکوٰۃ کتاب العلم صفحہ۲۷) امام سفیان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہر محدث کے چہرہ پر (اس دعا کی برکت سے) رونق ہوتی ہے چاہے وہ بوڑھا ہو جائے۔ (ب) اے اللہ! میرے خلفاء پر جو پیچھے آئیں گے رحم کر جو روایت کریں گے۔ میری احادیث اور میری سنت اور تعلیم دیں گے ان کی لوگوں کو (جامع صبغہ للسیوطی) احادیث کی حفاظت خود اللہ تعالیٰ کو منظور تھی قرآن شریف سے پہلی آسمانی کتابوں میں تغیر و تبدل تصحیف و تحریف ہر طرح کے انسانی تصرفات ہوتے رہے اور وہ کتابیں محفوظ نہ رہ سکیں ۔ حتی کہ زمانہ ما بعد میں ان کی بجائے دیگر کتابیں انہیں ناموں سے مشہور کی گئیں اور یہ امر ہر زمانہ کے ان علماء پر روشن ہے جو ان کتابوں اور ان قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے ہوئے ہیں ۔ جن اقوام سے اپنی الہامی کتابیں بھی محفوظ نہ رہ سکیں وہ اپنے انبیاء علیہم السلام کی سنت اور طریق عمل کی کیا حفاظت کرتیں ۔ (۲) لیکن اللہ کے فضل سے قرآن شریف کا ایسا حال نہیں ہوا۔ بلکہ وہ نہایت صحت و صفائی سے انہی الفاظ میں محفوظ ہے جن میں وہ نازل ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کے سامنے پڑھا اور ان کو سکھایا اور نمازوں اور خطبوں میں اس کی قرات کی اور ان سے وعظ و تذکیر کی۔ اس کے حافظ اس وقت بھی کثیر تعداد میں موجود تھے اور آپ کے بعد تو ہر زمانہ میں دنیا کے ہر قطر میں بیش از بیش ہوتے رہے۔ جن کی گنتی سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جان سکتا۔ پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق عمل اور خطبوں اور وعظوں میں آپ کی توضیحات و تذکیرات محفوظ نہ رہیں تو خالی الفاظ کی حفاظت سے وہ عملی کوائف کس طرح معلوم ہو سکیں گے جو آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہ کے سامنے ادا کئے۔ سو اس کے لئے اللہ تعالیٰ زمانہ مابعد میں ایسی بابرکت ہستیاں پیدا کرتا رہا جن کی زندگی کا مقصد رسول اللہ کی احادیث و سنت کا علم حاصل کرنے کے سوا دیگر کچھ نہ تھا۔ مولانا حالی
Flag Counter