روزہ رکھتا بھی ہوں اور توڑتا بھی ہوں اور (رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ۔ اور میری بیویاں بھی ہیں ۔ پس جو کوئی میری سنت سے رو گردانی کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے (اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا۔ مشکوٰۃ صفحہ۱۹)
(۲) اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ صدیقہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام کیا اور اس کے (کرنے یا نہ کرنے کے) بارے میں (لوگوں کو) اختیار دیا۔ بعض لوگوں نے (اس عمل کو ہلکا جان کر) اس سے پرہیز کرنا چاہا یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ نے خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی۔ پھر فرمایا وہ کیسے لوگ ہیں ؟ جو اس امر سے پرہیز کرنا چاہتے ہیں جسے میں کرتا ہوں ۔ اللہ کی قسم مجھے ان سب سے اللہ کی شناخت زیادہ ہے اور مجھے اس کا ڈر بھی ان سب سے زیادہ ہے (متفق علیہ مشکوٰۃصفحہ۱۹)
(۳) اسی طرح حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (جماعت صحابہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ دیگر لوگ تمہارے تابع ہیں اور (میرے پیچھے) کئی لوگ زمین کے کناروں سے تمہارے پاس آکر دین کی سمجھ حاصل کریں گے۔ پس تم میری (تاکید) ان سے نیک سلوک کرنے کے متعلق قبول کرو (رواہ الترمذی مشکوٰۃ صفحہ۲۶ کتاب العلم)
(۴) اسی طرح ابراہیم بن عبدالرحمن عذری نے مرسلاً روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یحمل ھذا العلم من کل خلف عدولہ (الحدیث) (یعنی ہر زمانہ کے) پیچھے آنے والے عادل لوگ اس علم (دین) کو حاصل کرتے رہیں گے۔
ان احادیث سے صاف ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سنت کی حفاظت خاص طور پر ملحوظ تھی۔ کیونکہ سنت پر عمل اور آئندہ آنے والے لوگوں کو اس کی تعلیم بغیر حفاظت کے نہیں ہو سکتی۔
دوسرا طریق: یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی مسئلہ فرماتے تو اسے تین دفعہ دہرا کر فرماتے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی (دینی) بات فرماتے تو اسے تین دفعہ دہراتے حتی کہ اسے (اچھی طرح) سمجھ لیا
|