Maktaba Wahhabi

331 - 484
سے مدینہ طیبہ پر آخری اور فیصلہ کن حملہ کیا اور مسلمان دہشت زدہ ہو گئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ بھی اثر نہ تھا تو اس پر خداوند تعالیٰ نے فرمایا لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (احزاب پ۲۱) ’’ (مسلمانو!) تمہارے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ میں قابل اقتدا اچھا نمونہ عمل تھا۔‘‘ (ب) اور اسی حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ کے سفر تبوک کے ذکر میں جو شدت گرما میں دور دراز مسافت کا سفر تھا اور کئی ایک لوگوں کے دل اس موقع پر چھوٹ گئے تھے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا: لَكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ (توبہ پ ۱۰) ’’لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ کے مومن اپنے مالوں اور اپنی جانوں سمیت شریک جنگ ہوئے۔‘‘ (ج) صراط مستقیم جس کی تحصیل کے لئے اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ کی ساری تگ و دو ہے اور ہر نمازی ہر رکعت نماز میں اسے طلب کرتا ہے اس کی نسبت بھی تو یہی فرمایا کہ وہ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی وہ صراط مستقیم ان لوگوں کا طریق عمل ہے جن پر خدا کا انعام ہوا اور انعام والوں کے صدر نشین حضرات انبیاء علیہم السلام ہی ہیں ۔ چنانچہ فرمایا فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ الایۃ (النساء پ۵) ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ لوگ میرے رسول کا نمونہ عمل اختیار کریں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی علی الاعلان فرماتے ہیں کہ میرا طریق عمل بہترین طریق عمل ہے۔ تو کیا کوئی عقلمند کہہ سکتا ہے کہ جو امر ایسا خوب اور پسندیدہ اور موجب سعادت ہر دو جہان ہو اسے حکیم و دانا اور قدیر و توانا خدا اور اس کا حکمت آموز اور مصلحت اندیش رسول ضائع جانے دے گا؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں ۔ آمدم برسر مطلب: پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت و سیرت کی حفاظت دو طرح سے کی ہے۔
Flag Counter