کے حسب استعداد آپ کے فیض صحبت سے اکتساب فضائل یعنی تزکیہ نفس اور تہذیب اخلاق کا بہرہ حاصل کریں ۔ چنانچہ آپ اپنی بعثت کا ایک مقصد یہ فرماتے ہیں انما بعثت لاتمم صالح الاخلاق اور حق تعالیٰ نے آپ کی شان میں فرمایا وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (ن پ۲۹) نیز فرمایا
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (آل عمران پ۴)
’’اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر (بڑا ہی) فضل کیا کہ ان میں انہیں میں کا ایک رسول برپا کیا جو ان پر اس کی کتاب پڑھتا اور ان کو پاک کرتا اور ان کو کتاب (الٰہی) اور حکمت (طریق عمل) سکھاتا ہے اور بے شک یہ لوگ اس سے پیشتر صریح گمراہی میں (پڑے ہوئے) تھے۔‘‘
یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی نمونہ ہی کا اثر تھا کہ عرب کے امتی اور علوم سے بے خبر بدویوں میں ایسی روح پھنک گئی کہ انہوں نے حیرت انگیز قلیل مدت میں کسریٰ و قیصر کے تخت الٹ دئے۔ اسی روح پرور سیرت کی حقیقت سمجھانے کے لئے اور اسے نمونہ عمل بنانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر خطبات میں عام لوگوں کے مجمع میں با آواز بلند فرمایا کرتے تھے۔
ان خیر الحدیث کتاب اللّٰہ و خیر الھدی ھدی محمد(صحیح مسلم ابواب الجمعہ)
’’ بہترین کلام خدا کی کتاب (قرآن مجید) ہے (جس میں لفظی تعلیم ہے) اور بہترین سیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے (جو عملی تعلیم ہے)۔‘‘
(۲) قرآن شریف میں علاوہ اتباع و اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تائیدی آیات کے کئی جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ عمل اختیار کرنے کی تاکید و ترغیب ہے۔(ا) چنانچہ جب جنگ احد کی ہزیمت سے کھسیانے ہو کر تمام قبائل عرب نے متفقہ طاقت سے کئی ہزار جمعیت
|