آنے لگی تو ایک گروہ نے ظاہر کتاب و سنت کو (اسی طرح) پکڑے رکھا اور اصول عقلیہ کی موافقت یا مخالفت کی پرواہ نہ کی اور کہیں معقولات میں بولے بھی تو صرف خصم کے الزام دینے اور زیادہ اطمینان کے لئے (بولے) نہ کہ استفادہ عقائد کے لئے۔ سو یہ لوگ تو اہل سنت ہیں اور دوسرے گروہ نے ان موقعوں میں جہاں ان کے خیال میں اصول عقلیہ کی مخالفت نظر آئی۔ (ان الفاظ قرآن و حدیث کو) ان کے ظاہر معانی سے ہٹا کر ان کی تاویل کر دی۔ پس انہوں نے (ان علوم عقلیہ کی رو سے) تحقیق امر اور بیان حقیقت کے لئے گفتگو کی۔ اور دوسری قسم مسائل کی وہ ہے جو نہ تو کتاب اللہ میں منطوق ہے اور نہ ان کے متعلق کوئی حدیث مشہور ہی ہے۔ اور نہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے ان میں (تفصیلی) کلام کیا۔ سو وہ اپنی اسی حالت پر پڑے رہے حتی کہ متاخرین اہل علم نے ان میں کلام کیا۔ اور کئی ایک وجوہ سے (جو اصل کتاب حجتہ اللہ میں مذکور ہیں ) ان میں اختلاف ہوا۔ مثلاً آیات صفات کہ ان میں اجمالی طور پر اصولاً تو سب متفق ہیں لیکن ان کی تفصیل و تفسیر میں مختلف ہیں ۔ ایک گروہ تو کہتا ہے کہ ان سے ان کے مناسب (تاویلی) معانی مراد ہیں اور دوسرے کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ ان سے مراد (الٰہی) کیا ہے؟ پس اس قسم (ثانی) میں ایک کو ترجیح دیتا اور یہ کہتا کہ ان میں سے فلاں سنت کے مطابق ہے (اور فلاں نہیں ہے) صحیح نہیں جانتا۔ کیونکہ اگر تو خالص سنت طلب کرے تو وہ تو ان مسائل میں بالکل خوض نہ کرنا ہے جیسا کہ سلف (صالحین) نے ان میں خوض نہیں کیا۔ انتہی مترجما ً و مخلصا ً(حجتہ اللہ مصری جلد اول ص۹‘ ۱۰)
حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی عبارت کا محصول یہ ہے کہ مسائل اعتقادیہ دو قسم پر ہیں ۔
اول: وہ جن کی کیفیت قرآن یا حدیث میں بالتصریح وارد ہے مثلاً عذاب قبر
|