لوگ دو گروہ ہیں ایک تو وہ ہیں جو اس قسم کی احادیث سے بالکل منکر اور ان کے مکذب ہیں اور اس میں ان علماء کی تکذیب ہے جنہوں نے احادیث کو روایت کیا حالانکہ وہ امامان دین اور ناقلین سنت ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمارے درمیان واسطہ ہیں دوسرا گروہ وہ ہے جو ان روایات کو تسلیم تو کرتا ہے۔ لیکن ان کے ظاہر معانی کے اثبات میں ایسی روش چلتا ہے جو قول بالتشبیہ کے قریب پہنچا دیتی ہے۔ اور ان ہر دو امور (انکار و تشبیہ) سے ایک ساتھ بیزار ہیں اور ان میں سے کسی سے بھی مذہب بنانے کی رو سے ہم راضی نہیں ہیں ۔ پس ہم پر واجب ہے کہ ان احادیث میں جو نقل و سند کی رو سے صحیح ثابت ہو جائیں کوئی ایسی تاویل ڈھونڈیں جو اصول دین کے معانی کو اور مذاہب علماء (سلف) کو ملحوظ رکھ کر کی جائے اور جو روایت اس بارے میں وارد ہوئی ہو جب اس کا طریق (روایت) پسندیدہ (مقبول) ہو اور اس کے نقل کرنے والے (راوی) عادل ( و متقی) ہوں تو اس (تاویل) سے وہ (روایت) باطل نہ ہو جاتی ہو۔
ان ہر دو ائمہ اہل حدیث کی تصریحات سے صاف ثابت ہو گیا کہ اہل حدیث کو تاویل سے بہرصورت انکار نہیں ۔ بلکہ وہ صرف ان باطل تاویلوں سے انکار کرتے ہیں ۔ جن میں اصول دین نصوص شرعیہ اور محاورات زبان عرب ملحوظ نہ ہوں اور ادھر ادھر کے زٹل قافئے ملا کر کر دی جائیں ۔ جس طرح گمراہ فرقے پہلے بھی کرتے رہے ہیں ۔ اور اب بھی کرتے ہیں فافہم۔
حضرت حجتہ الہند اس مسئلہ کو ایک خاص تفصیل سے لکھتے ہیں ۔ جس کا خلاصہ و حاصل حسب ذیل ہے۔
مسائل شرعیہ جن کے سبب امت کے کئی فریق ہو گئے دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جو قرآن و حدیث منطوقاً و تصریحاً مذکور ہیں اور صحابہ و تابعین ان کو اسی طرح مانتے رہے۔ جب وہ زمانہ آیا جس میں ہر شخص کو اپنی اپنی رائے پسند
|