بھی نہ ہو تاویل نہیں کرتے بلکہ ان کو صفات ذات جانتے ہیں جن کا وجود ذات برحق کے لئے ضروری ہے۔ اور ان کی حقیقت کا انکشاف سپرد ِالٰہی کرتے ہیں اور کہتے ہیں انت کما اثنیت علی نفسک
اے برادر بے نہایت در گہیست
ہرچہ بروے میرسی بروے مانیست
چنانچہ شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پیشتر انہی کی روش کے ایک امام حدیث حافظ ابن حزم قرطبی رحمہ اللہ جو ۴۵۶ھ میں فوت ہوئے اپنی مشہور تصنیف کتاب الفصل میں معتزلہ کے اس قول کے جواب میں کہ اللہ تعالیٰ ہر مکان میں ہے فرماتے ہیں معتزلہ لوگ اس امر پر آیت مایکون من نجوی ثلاثۃ الاھو رابعھم (مجادلہ پ۲۸) وغیرہ سے استدلال کرتے ہیں سو اس کا جواب یہ ہے کہ
(قال ابو محمد) قول اللّٰہ تعالی… یجب حملہ علی ظاہرہ مالم یمنع من حملہ نص اخراو اجماع او ضرورۃ حس (جلد ۲ ص۱۲۲)
اللہ تعالیٰ کے قول کو ظاہر پر حمل کرنا واجب ہے جب تک کہ اس کو ظاہر پر حمل کرنے سے دوسری نص یا اجماع یا ضرورۃ ًحس منع نہ کرے۔
اس کے بعد ان سب آیات کا ایک ہی جواب دیا ہے کہ ان سے تدبیر و احاطہ مراد ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ تاویل ہے حالانکہ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ خود ظاہری ہیں اور مفوضین کے امام ہیں لیکن یہاں ’’تاویل‘‘ کی ہے اور وجہ اس کی یہ بیان کی کہ عقلاً اور حساًمعلوم ہے کہ جو شے کسی مکان میں ہوتی ہے وہ اس مکان کو پر کرنے والی ہوتی ہے اور اسی شکل کی ہوتی ہے اور یہ بات احکام اجسام میں سے ہے جس سے اللہ تعالیٰ پاک ہے۔ (لہٰذا اس کو ظاہر پر حمل کرنا درست نہیں ) اس کے بعد استواء کی نسبت کہا ہے کہ نہ تو اس سے مراد استقرار ہے (جو اس کے حقیقی معنی کو لازم ہے) اور نہ استیلاء (جو تاویل ہے) بلکہ
یعنی انہ فعل فعلہ فی العرش وھو انتہاء خلقہ الیہ فلیس بعد
|