ذات برحق کی مخلوق سے مشابہت لازم آتی ہے اور مشابہت باطل ہے تو ان الفاظ سے ان کے لغوی معنی نہیں بلکہ ان کے مناسب کوئی دیگر معانی مراد ہیں اور ان الفاظ کا استعمال ان معانی میں مجازی طور پر کیا گیا ہے اور مجاز کا استعمال فصیح زبان میں ضرور ہوتا ہے اور قرآن و حدیث میں علاوہ آیات صفات کے دیگر مواقع میں بھی بکثرت ہے جس سے اہل تفویض کو بھی انکار نہیں ۔ جس کی تفصیل کا یہ مقام نہیں ۔
تیسرا مذہب تفویض ہے۔ اس کی شرح یوں ہے کہ یہ تو درست ہے کہ جو الفاظ نعوت (صفات) باری تعالیٰ میں وارد ہوئے ہیں ان کے ان سے ظاہری و حقیقی معانی مراد نہیں ہیں یعنی وہ معانی جو لغت کی رو سے حقیقتہ ًہمارے ذہن میں اور مشاہدے میں آتے ہیں مراد نہیں ہیں بلکہ وہ ذات برحق کی صفات ہیں جن کی کیفیت و حقیقت ہمارے ذہن میں نہیں آسکتی جیسے کہ ہم اس کی ذات کا تصور حقیقی نہیں کر سکتے۔ ہاں ہم ہر جگہ ان الفاظ کی تاویلی مراد بھی مقرر نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ہم ان کی حقیقت کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں ۔ اول اس وجہ سے کہ ہمارے پاس کوئی قطعی سند عقلی یا نقلی نہیں ہے جو ہم کو تاویل پر مضطر کرے۔ دوم اس وجہ سے کہ تفویض میں سلامتی ہے اور تاویل میں ذمہ داری۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جو تاویل ہم کریں وہ خدا کی مراد کے خلاف ہو پس ترجیح تفویض کو ہے نہ کہ تاویل کو۔
سوم اس وجہ سے کہ اگر ہر جگہ لازمی طور پر تاویل کریں اور صفات ذات صفات فعل میں امتیاز نہ کریں تو ذات برحق کا صفات سے معطل ہونا لازم آئے گا جیسا کہ جہمیہ کا مذہب ہے اور وہ باطل ہے۔
تنبیہ:۔ بعض لوگوں کا خیال اب بھی ہے اور پہلے بھی رہا ہے کہ اہل حدیث مطلقاً تاویل کے قائل نہیں ہیں ۔ لیکن ان کی یہ رائے مسئلہ صفات کو تفصیلاً نہ سمجھنے اور ائمہ اہل حدیث کی تصریحات و تشریحات کو نہ جاننے کے سبب ہے۔ بلکہ صفات فعل میں جہاں کوئی قطعی دلیل عقلی یا نقلی تاویل پر مجبور کرے وہاں اہل حدیث بھی تاویل کرتے ہیں اور صفات ذات میں جہاں انکار صفات لازم آتا ہو اور کوئی دلیل قطعی صاف
|