تفویض میں فرق نہیں جانتا۔ حالانکہ ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے کہ تفویض تو ہے درجہ اقرار بعدم الادراک کا اور حق ہے۔ اور تشبیہ و تجسیم درجہ ہے قول بالعلم کا اور باطل ہے فافھم ولا تکن من القاصرین۔
کشف حقیقت: اصل بات یوں معلوم ہوتی ہے کہ ان بزرگان نے جنہوں نے حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ کو تجسیم و تمثیل کا قائل سمجھا ہے کسی معتزلی یا جہمی کی کسی تحریر میں دیکھ لیا ہو گا کہ وہ حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ کو مجسم قرار دیتے ہیں کیونکہ حضرت شیخ مثبت صفات تھے جیسا کہ ان تصریحات سے ظاہر ہے اور معتزلہ و جہمیہ مثبتین صفات کو مجسمہ کہتے ہیں ۔ تو ان بزرگوں نے بھی سمجھ لیا ہو گا کہ حضرت شیخ سچ مچ مجسم ہیں ۔ اور پھر کہیں ان کی کوئی مجمل عبارت بھی مل گئی تو اس نے خیال سابق کو اور پختہ کر دیا۔ چنانچہ اس امر کی بابت حضرت شیخ خود فرماتے ہیں ۔
والجہمیۃ والمعتزلۃ یقولون من اثبت للہ الصفات وقال ان اللّٰہ یری فی الاخرۃ والقران کلام اللّٰہ لیس بمخلوق فانہ مجسم مشبہ (منہاج جلد اول ص۱۷۳)
جہمیہ اور معتزلہ (جو منکرین صفات ہیں ) کہتے ہیں کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی صفات کو مانتا ہے اور کہتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا اور قران کلام اللہ مخلوق نہیں ہے پس وہ شخص مجسم اور مشبہ ہے۔
رجوع بمطلب: غرض یہ کہ آیات صفات کے متعلق تین مذاہب ہیں اول یہ کہ جو نصوص وارد ہیں ان کے حقیقی اور لغوی معنی مراد ہیں اور ان میں سے کسی صورت میں بھی تاویل کی گنجائش نہیں اور یہ مذہب مشبہین کا ہے۔ جو خدا تعالی کو بھی ایک جسم تصور کرتے ہیں اور اس کے ہاتھ پاؤں آنکھ انگلیاں وغیرہ اعضاء تجویز کرتے ہیں کیونکہ نصوص میں ان کے لئے الفاظ وارد ہیں اور یہ باطل ہے اور اہل حدیث اس سے بری ہیں جیسا کہ اوپر گذر چکا۔
دوسرا مذہب تاویل ہے۔ اور اس کا بیان یوں ہے کہ جب ظاہر الفاظ کی رو سے
|