کی تاویل سوائے ذات باری عزاسمہ کے دیگر کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے ہم ان کی کوئی کیفیت نہ ذہن میں فرض کرتے ہیں اور نہ زبان سے کہتے ہیں بلکہ اس کا علم خدائے تعالیٰ کے سپرد کرتے کہتے ہیں کہ یہ امور صفات باری میں کما تلیق بشانہ المقدس ہیں ۔ چنانچہ وہ آیت آل عمران میں اسم جلالت یعنی ’’اللہ‘‘ پر وقف کرتے ہیں ۔ اور مو ٔولین کہتے ہیں کہ ان کی تاویل راسخین فی العلم بھی جانتے ہیں چنانچہ وہ الراسخون فی العلم کو بھی بواسطہ حرف عطف استثناء میں داخل کرتے ہیں ۔ برخلاف مشبہین کے کہ وہ ان الفاظ کے ظاہری معنی بایں طور لیتے ہیں کہ مثلاً ید سے اسی قسم کا ہاتھ مراد ہے جسے ہم پہچانتے ہیں ۔ جس کا نتیجہ معاذ اللہ یہ ہے کہ خدائے تعالی و تقدس ایک جسمانی چیز ہے پس وہ جمیع صفات و عوارض جسمانیہ کا محل ہو سکتا ہے۔
تنبیہ ضروری:۔ بعض لوگ جنہوں نے اس مسئلہ کے اختلاف کو اس طریق پر جو امام شوکانی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے اور ہم نے اس کی توضیح کی ہے‘ نہیں سمجھا۔ وہ اہل تفویض کو بھی مجسمہ خیال کرتے ہیں ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا پایہ علوم شرعیہ و حکمیہ میں مسلم کل ہے اور ان کی نصرت حق اور حمایت سنت بھی معلوم ہے۔ زندگی بھر مؤولین‘ مشبہین اور معطلین کی تردید میں قلم اٹھائے رکھا اور طریق تفویض کی تائید میں اس قدر لکھا کہ باطل بدلائل عقلیہ و سمعیہ ثابت کر دیا کہ جہاں اہل تاویل کا آخری قدم ہے وہ اہل تفویض کا پہلا زینہ ہے اور مشبہین کی نسبت واضح کر دیا کہ یہ لوگ ایمان سے بے بہرہ ہونے کے علاوہ عقل سے بھی کورے ہیں کہ ذات قدیم ازلی و ابدی کے لئے محدثات کی طرح جوڑ بند قرار دیتے ہیں ۔ اور معطلین کی نسبت ظاہر کر دیا کہ وہ ذات حق کو ایک ایسی ذات مانتے ہیں جو کسی صفت کمال کی مالک نہیں تعالیٰ اللّٰہ عما یقول الظلمون علوا کبیرا۔ لیکن باوجود اس کے بعض معقولیوں نے آپ کو مجسمہ سے سمجھا چنانچہ ’’سلم العلوم‘‘ کے حواشی میں لفظ لایحد پر مولوی عبد الحلیم سے نقل کیا ہے فی شرح الزلفی ای لا یکون محصور ابالحدود کالمکان والشکل وھذا اشار الی رد قول ابن تیمیہ من المجسمۃ حیث قال ان اللّٰہ متمکن علی العرش
|