اہل عراق ہیں اور اہل حدیث کے طریقہ پر اور وہ اہل حجاز ہیں ۔‘‘
پھر اس سے تھوڑا آگے اصحاب ظواہر اور ان کے امام داؤد بن علی رحمہ اللہ اصبہانی کا ذکر ہے۔ ان عبارتوں سے صاف ظاہر ہے کہ اہل حدیث اور اہل رائے کا مصداق ایک نہیں بلکہ دو مختلف گروہ ہیں ۔ اہل رائے تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب ہیں اور امام مالک رحمہ اللہ ‘ امام شافعی رحمہ اللہ ‘ امام احمد رحمہ اللہ ‘ امام سفیان رحمہ اللہ ثوری اور امام داؤد رحمہ اللہ علیہم اجمعین سب کے سب اہلحدیث ہیں ۔ الا موخر الذکر (امام داؤد) اہل ظاہر سے ہیں اور باقی سب اہل اجتہاد و استنباط ۔
فرقہ اھل حدیث کے باہمی اختلافات نمبر ۲:
یہی اختلاف مسلک آیات صفات کے سمجھنے میں ہوا کہ بعض نے تو مثلاً ید‘ عین وغیرہ کی بابت کہا کہ یہ صفات الہیہ کے نام ہیں جو ان الفاظ سے تعبیر کی گئیں ۔ گویا ان کو بمنزلہ ’’حقائق شرعیہ‘‘ کے جانا جن کی حقیقت و کیفیت کے علم کو تو کیا سپرد خدا اور تاویل سے کیا سکوت اور ان کے حقائق لغویہ یا عرفیہ کے رو سے جو تشبیہ لازم آتی تھی اس سے کیا انکار۔ لہذا ان کا نام ہوا اہل تفویض اس طریق میں یہ خوبی ہے کہ اس میں نہ تو معطلین کی طرح صفات سے انکار ہے اور نہ مشبہین و مجسمہ کی طرح ذات برحق کو جسمانی جانتا ہے بلکہ حدیث ’’انت کما اثنیت علی نفسک‘‘ کا نقشہ نظر میں اور اسی کا اثر دل پر جما رہتا ہے۔
اور دیگر بعض نے کہا کہ ان آیات میں جب حقیقی معنی مراد نہیں ہیں تو بحسب قرائن ان سے مجازی معنی مراد ہیں ان کو اہل تاویل کیا گیا۔ چنانچہ امام شوکافی (ان پر ہو رحمت رحمانی) جو متاخرین اہل حدیث میں بڑے پائے کے امام ہیں اور اہل تفویض میں سے ہیں ارشاد الفحول میں آیات صفات میں تاویل کرنے کے متعلق فرماتے ہیں ۔
وقد اختلفوا فی ھذا القسم علی ثلثۃ مذاھب (الاول) انہ لا مدخل للتاویل فیہا بل یجری علی ظاھرھاولا یوول شئی منہا وھذا قول المشبہ (والثانی) ان لہا تاویلا ولکنا نمسک عنہ مع تنزیہ اعتقادنا عن
|