ثم المجتہدون من ائمۃ الامۃ محصورون فی صنفین لا یعدون الی ثالث اصحاب الحدیث واصحاب الرأی۔ اصحاب الحدیث وھم اھل الحجاز ھم اصحاب مالک بن انس واصحاب محمد بن ادریس الشافعی واصحاب سفیان الثوری واصحاب احمد بن حنبل واصحاب داؤد بن علی بن محمد الاصبہانی (انتہی بقدر الحاجۃ جلد۲ ص۴۶)
’’امت کے مجتہد صرف دو قسم پر ہیں ۔ تیسری کوئی نہیں ۔ اصحاب حدیث اور اصحاب رائے اصحاب حدیث جو اہل حجاز و (مکہ مدینہ والے) ہیں اور وہ یہ ہیں امام مالک رحمہ اللہ کے شاگرد اور امام شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد اور امام سفیان رحمہ اللہ کے شاگرد اور امام احمد رحمہ اللہ کے شاگرد اور امام داؤد رحمہ اللہ کے شاگرد۔
اور اس سے اوپر اصحاب ظاہر کا ذکر کر کے کہتے ہیں ۔
ومن اصحاب الظاہر مثل داؤد الاصبہانی وغیرہ (ج ۲ ص ۴۵)
اور اصحاب ظاہر سے مثلاً امام داؤد اصبہانی رحمہ اللہ وغیرہ۔
اسی طرح علامہ موصوف اہل الرائے کی نسبت فرماتے ہیں ۔
اصحاب الرأی وھم اھل العراق اصحاب ابی حنیفۃ النعمان بن الثابت (ج ۲ ص ۴۶)
اصحاب رائے اور وہ اہل عراق ہیں وہ امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں ۔
اسی طرح علامہ ابن خلدون اپنی تاریخ کے مقدمہ میں صحابہ کے بعد کے زمانے کی نسبت فرماتے ہیں ۔
طریقتین طریقۃ اھل الرای والقیاس وھم اھل العراق وطریقۃ اھل الحدیث وھم اھل الحجاز (جلد اول ص۲۷۲ علم الفقہ)
ان میں فقہ دو طریقوں پر منقسم ہوئی۔ اہل رائے و قیاس کے طریقے پر اور وہ
|