Maktaba Wahhabi

315 - 484
’’امام سہیلی وغیرہ نے کہا کہ اس حدیث سے یہ بات مستنبط ہوتی ہے کہ جو شخص کسی حدیث یا آیت کے ظاہری معنی لے تو اسے برا نہ جانیں اور اسی طرح اسے بھی برا نہ کہیں جو کسی نص سے کوئی مخصوص معنی استنباط کرے۔‘‘ اور اس کے بعد فرماتے ہیں ۔ وحاصل ماوقع فی القصۃ ان بعض الصحابۃ حملوا النہی علی حقیقۃ قولہ وبعض الاخر حملوا النہی علی غیر الحقیقۃ وانہ کنایۃ عن الحث والاستعجال والاسراع الی بنی قریظۃ (فتح الباری پارہ۱۶ ص۶۷ مطبوعہ دہلی) حاصل قصہ یہ ہے کہ بعض اصحاب نے نہی کو حقیقت پر سمجھا اور بعض نے غیر حقیقت پر اور کہا کہ یہ کنایہ ہے۔ بنی قریظہ کی بستی میں بہت جلدی پہنچنے کی ترغیب کا۔ پہلے گروہ (اہل ظاہر) میں سے یہ بزرگ ہیں امام ابو داؤد بن علی اصبہانی رحمہ اللہ اور امام حافظ ابن حزم رحمہ اللہ قرطبی وغیرہما۔ اور دوسرے گروہ میں سے یہ ہیں امام مالک رحمہ اللہ ‘ امام شافعی رحمہ اللہ ‘ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ‘ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام ترمذی وغیرہم رحمتہ اللہ علیہم اجمعین۔ دفع دخل:۔ شاید کسی کے ذہن میں یہ کھٹکے کہ جس نوع کا اختلاف تم اہل حدیث میں بتا کر ان میں سے ایک گروہ کو اہل اجتہاد و استنباط کہتے ہو۔ اور ان کی روش یہ بتلاتے ہو کہ وہ کسی نص میں اس کے ظاہری معنی کے سوا برعایت قواعد و قرائن کوئی مخصوص معنی مراد لینا جائز جانتے ہیں ۔ اور حضرات احناف کا مسلک بھی تو یہی ہے تو پھر تم ان کو اہل رائے کیوں کہتے ہو۔ اور اہل حدیث کیوں نہیں جانتے؟ تو اس کا مفصل جواب تو فصل سابق سے معلوم ہو چکا ہے کہ دونوں کے مسلک اجتہاد میں بہت فرق ہے اسی لئے اہل نظر برابر اہل حدیث اور اہل رائے کو دو جدا جدا گروہ قرار دیتے چلے آئے ہیں ۔ چنانچہ علامہ شہرستانی (المتوفی ۵۴۸؁ھ) میں اپنی مشہور کتاب الملل والنحل میں مجتہدین فی الفروع کے ضمن میں فرماتے ہیں ۔
Flag Counter