Maktaba Wahhabi

314 - 484
داخل ہیں ۔ اہل حدیث میں یہ اختلاف مسلک کوئی نئی بات زمانہ مابعد میں نہیں ہوئی۔ بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی ہی میں فہم کتاب کے متعلق صحابہ رضی اللہ عنہ دو طریق پر تھے۔ بعض اہل ظاہر جو خطاب شرع کو ظاہری معنوں پر مقصود رکھتے تھے اور بعض اہل استنباط جو ظاہری معنوں کو چھوڑ کر حالت خطاب کو نگاہ رکھ کر ان سے کوئی خاص مراد سمجھتے تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود بنی قریظہ کے محاصرے کے لئے لشکر بھیجا تو اسے یہ حکم بھی دیا۔ لا یصلین احد العصر الا فی بنی قریظۃ فادرک بعضہم العصر فی الطریق فقال بعضہم لانصلی حتی ناتیہا وقال بعضہم بل نصلی لم یرد منا ذلک النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلم یعنف واحدا منہم (بخاری جلد دوم باب مرجع النبی من الاحزاب الخ) ’’نہ پڑھے تم میں سے کوئی نماز عصر مگر بنی قریظہ کی بستی میں پس بعض کو عصر کا و قت رستے ہی میں ہو گیا تو ان میں سے بعض کہنے لگے کہ ہم نماز نہیں پڑھیں گے۔ حتی کہ ہم اس بستی میں پہنچ جائیں اور دوسروں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اس حکم سے یہ نہیں ہے اس لئے ہم تو نماز یہیں پڑھ لیتے ہیں ۔ پس یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ذکر کیا گیا تو آپ نے دونوں فریق سے کسی کو بھی زجر و تو بیخ نہ کی۔‘‘ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ صحابہ کرام میں سے بعض نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب کو ظاہر الفاظ پر حمل کیا۔ اور بعض نے ظاہر کے سوا ایک مخصوص مراد سمجھی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ نے کسی فریق کو بھی زجر و توبیخ نہ کی۔ خاتمتہ الحفاظ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں ۔ قال السھیلی وغیرہ فی ھذا الحدیث من الفقہ انہ لا یعاب علی من اخذ بظاہر حدیث اوایۃ وعلی من استنبط من النص معنی یخصصہ
Flag Counter