شرائط تنقید و اعتبار میں جس طرح بعض مقامات میں دیگر محدثین میں اختلاف ہے۔ اسی طرح بعض شروط میں امام صاحب رحمہ اللہ کا بھی اختلاف ہو تو یہ قابل گرفت نہیں اصول حدیث اور اصول درایت پر نظر رکھنے والے علماء سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے چنانچہ نور الانوار کے متن منار میں ہے۔
اعلم ان اصول الشرع ثلثۃ الکتاب والسنۃ و اجماع الامۃ والا صل الرابع القیاس (نور الانوار ص۶‘ ۷)
’’جان تو کہ دلائل شرع کے متن ہیں ۔ قرآن شریف اور حدیث شریف اور اجماع امت اور چوتھی دلیل قیاس ہے۔‘‘
اس کی شرح میں ملا احمد رحمہ اللہ صاحب (استاد شہنشاہ غازی عالمگیر رحمتہ اللہ علیہما) نور الانوار میں فرماتے ہیں ۔
ھو القیاس المستنبط من ھذہ الاصول الثلثۃ (نور الانوار مطبوعہ لکھنو ص۷)
’’وہ قیاس دلیل شرع ہو سکتا ہے جو ان تین اصول (مذکورہ) سے مستنبط ہو۔‘‘
علاوہ اس کے ہم حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تہذیب التہذیب سے ایک خاص حوالہ ذکر کرتے ہیں جس سے امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب نہایت صفائی سے معلوم ہو جائے گا اور سب وہم دور ہو جائیں گے۔ وہ یہ کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔ یحییٰ بن ضریس کہتے ہیں کہ میں امام سفیان رحمہ اللہ کی مجلس میں حاضر تھا کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا۔ اور پوچھنے لگا کہ آپ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ میں کیا عیب پاتے ہیں امام سفیان رحمہ اللہ نے سوال کیا کیوں ان کو کیا ہے؟ اس شخص نے کہا میں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو فرماتے سنا کہ میں پہلے اللہ تعالیٰ کی کتاب (قرآن) کو لیتا ہوں اگر وہ مسئلہ اس میں نہیں پاتا تو رسول خدا ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سنت کو لیتا ہوں اگر اس میں بھی نہیں پاتا تو صحابہ سے جس کا قول پسند کرتا ہوں لے لیتا ہوں اور ان کے قول کو چھوڑ کر کسی اور طرف نہیں جاتا۔ لیکن جب ابراہیم (نخعی رحمہ اللہ ) اور شعبی اور محمد بن سیرین اور عطاء (بن رباح) تک نوبت آجائے تو یہ ایسے لوگ ہیں
|