جس سے ثابت ہو گیا ہے کہ حدیث صحیح و ثابت ہے اور اس سے انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
اس سے ہماری اصل غرض صاف ثابت ہے کہ محدثین علیہم الرحمتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کی پیروی میں قیل و قال اور حیل و حجت نہیں کرتے۔
سچی فقاہت جس کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
من یرد اللّٰہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین۔
’’اللہ تعالیٰ کو جس کسی کی بھلائی منظور ہوتی ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔‘‘
صرف محدثین رحمہ اللہ کے حصہ میں ہے۔ جن کی زندگی کا اعلی مقصد حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور اس کی پیروی ہے۔ ان کا یہ وطیرہ ہرگز نہیں کہ اگر کسی حدیث کی حکمت معلوم نہیں ہو سکی تو اپنی ناقص سمجھ کو کامل و بے قرار دے کر ٹال دیا جائے۔ واللہ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم۔
ایک بھاری وہم کا ازالہ:۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا طریق اجتہاد محدثین علیہم الرحمتہ کے طریق سے جدا ہے اور آپ قیاس کو حدیث پر مقدم رکھتے تھے۔ اس کا جواب تفصیل طلب ہے جس کا بیان مختصراً یہ ہے کہ اس عاجز زلہ ربائے علمائے متقدمین کی تحقیق جو دیانت و ادب ہر دو امروں کو ملحوظ رکھ کر ہے یہ ہے کہ حضرت امام صاحب اہلسنت اور اہل حدیث کے پیشوا تھے۔ جیسا کہ باب اول کے ضمیمہ فصل سوم میں آپ کے خصوصی حالات میں ائمہ اہل حدیث مثل امام ذہبی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ رحمہم اللہ کے اقوال سے گذر چکا ہے اس کے علاوہ اس موقع پر آپ کے طریق اجتہاد کا بیان مختصرا یہ ہے کہ دلائل شرع کے اصول اجتہاد یا بنائی قیاس ہیں تین امر ہیں ۔ قرآن اور حدیث صحیح اور اجماع امت اور چوتھی دلیل وہ قیاس ہے جو (قواعد مسلمہ و مقررہ کے رو سے) ان تینوں میں سے کسی ایک سے مستنبط ہو۔ اس تفصیل سے جو ہم نے بیان کی کسی امام حدیث یا امام فقہ کو انکار نہیں ہاں
|